(گزشتہ سے پیوستہ)
عام امریکیوں کو ٹرمپ کی یہ بات بھلی لگتی ہے کہ جنگوں کی پاداش میں جتنی مظلوم آبادی کیلئے ہم اپنے دروازے کھولتے ہیں وہ اپنے ساتھ ہمارے لیے متنوع مسائل بھی لاتی ہے ماقبل سیریا عراق اور افغانستان سے کتنے لوگوں کو سنبھالنا پڑا اب یوکرین کی بھی وہی صورتحال ہے یہیں سے امیگریشن کے ایشوز کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، میکسیکو بارڈر سے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونیوالے تارکین صرف ٹرمپ کا ہی نہیں عام امریکیوں کا بھی سردرد ہیں اور یہ بھاری پتھر ٹرمپ ہی اٹھا سکتا ہے، اسقاط حمل جیسے ایشوز اس بھیانک ایشو کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ بے شک گن کلچر یا ہیلتھ اور ایجوکیشن کے مسائل ہیں ٹیکسز کی بھرمار کا مسئلہ بھی ہے لیکن اکانومی جتنی بہتر ہو گی اسکے اثرات دیگر تمام ایشوز پر مرتب ہونگے جنگوں کے خاتمے سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ٹرمپ ٹیرر ازم سے کمپرومائز کر لے گا تو یہ خام خیالی ہے اسرائیل سے وفاداری میں ٹرمپ کسی بھی ڈیموکریٹ سے پیچھے نہیں رہے گا اپنے پہلے دور میں جس طرح اس نے اپنے داماد جیرڈکشنر کو آگے کرتے ہوئے ’’ابراہیم اکارڈ‘‘ کو اچھا خاصا منوا لیا تھا یہ سلسلہ دوبارہ وہیں سے شروع ہو جائیگا جہاں پر چھوٹا تھا، اسرائیل کی سلامتی کا بہرصورت دفاع کیا جائے گا۔ امریکی ڈیموکریسی کی عظمت کا کمال یہ ہے کہ ان کی سیاست میں بھان متی کے کنبوں کی کوئی حیثیت نہیں بالغ نظر سیاست ٹو پارٹی سسٹم پر مستحکم ہو چکی ہے اور اس میں بھی اتنی میچورٹی ہے کہ نیشنل یا انٹرنیشنل ایشوز پر ایک سو ایک اختلافات کے باوجود اپنے پرمنینٹ نیشنل انٹرسٹ سے کسی صورت باہر نہیں جاتے۔ لہٰذا پاکستان کے متعلق ان کی سوچ یا پالیسی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہمارے جو لوگ یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ٹرمپ ڈیپ سٹیٹ پر پریشر ڈالتے ہوئے اپنے جیسے ہمارے کھلاڑی کو جیل سے نکلوا کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیں گے یہ ان کی بھول ہے، ٹرمپ کسی بھی ایشو پر اپنا مفاد دیکھیں گے یا اپنے ملک کا، انھوں نے اگر کسی نوع کا پریشر ڈالنا ہوا تو وہ کھلاڑی سے بڑھ کر شکیل آفریدی کیلئے کیوں نہیں ڈالیں گے؟ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش بلکہ انڈیا میں بھی ٹرمپ کی جیت کو امید بھری نظروں سے دیکھا جا رہا ہے حالانکہ انکے بالمقابل کملا دیوی ایک بھارتی نژاد ہندو ہیں جنہیں کیرالہ سے انڈیا کی بیٹی قرار دیا جاتا ہے لیکن ڈیموکریٹس بالخصوص بائیڈن کی کینیڈا نواز پالیسی سے نالاں بھارتی ٹرمپ کی جیت کو مودی کی جیت ظاہر کر رہے ہیں۔ درویش ٹرمپ کی جیت کو واضح طور پر محسوس کر رہا تھا اس لیے اپنے کالم میں کملا ہیرس سے زیادہ بحث ٹرمپ کے حوالے سے کی۔ تبدیلی اگر اچھی چیز ہے تو یہ اس وقت امریکا کی دہلیز پر کھڑی ہے اتنا لکھ کر بھیج چکا تھا کہ خبر نمودار ہوئی تبدیلی آ نہیں رہی، آ چکی ہے ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں امریکی و عالمی میڈیا نے ان پر جتنے بھی اعتراضات کیے تھے اس پربڑے وثوق سے کہا جا رہا تھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کوکامیاب ہوتےنہیں دیکھنا چاہتی جوابا ”یہ کہنا پڑتا کہ بھائی امریکا امریکا ہے آپ ان کی عوامی طاقت اور ڈیمو کریسی کا تقابل کسی پسماندہ ہائبرڈ سسٹم سے ہرگز نہ کریں۔ بالفرض اگر کملاجیت بھی جاتیں تو انہیں بائیڈن جیسی کمزور سوچ اور پالیسیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹرمپ جیسے بولڈ فیصلے ہی لینا پڑتے۔ ٹرمپ کو اپنی اس تاریخی جیت کے ساتھ جس طرح فرسٹ امریکا کا نعرہ سامنے رکھنا ہے اسی طرح امریکا کے عالمی کردار کی بھی پاسداری کرنا ہو گی۔ ان کی ترجیحات کا ادراک جیتنے کے فوری بعد اپنے قریب ترین تین اتحادیوں سے لگایا جا سکتا ہے جن سے ان کی گفتگو ہوئی، ان میں بنجمن نیتن یاہو، سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان اور انڈین پرائم منسٹر مودی ہیں۔ امریکی ڈیموکریٹک سسٹم کی یہ بڑی خوبی ہے کہ اس میں اگر کوئی فاسد مادہ بھی آ جائے تو سسٹم خود اس کی درستی کا اچھا خاصا اہتمام کر دیتا ہے اور پھر اتار چڑھاؤ کی ایک مخصوص مدت کے بعد ادل بدل کے ساتھ توازن آ جاتا ہے کسی ایک طبقے میں بے چینی آتی ہے تواس کی دلجوئی کرنے والا بھی آجاتا ہے، کانسٹی ٹیوشنل لبرٹی و ڈیمو کریسی سے ایک نوع کا توازن ہمہ وقت تسلسل کے ساتھ چلتا رہتا ہے اس درخشاں جمہوریت میں اتنی وسعت ہے کہ اس میں اپوزیشن کا بھی پورا ریگارڈ ہوتا ہے اور وہ آئندہ اقتدار میں آنے کی تیاری کرتے ہوئے حکومتی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھتی ہے، احتسابی جذبے سےایک دوسرے کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی ہے اور جب حکمران پارٹی کا لیڈر ہارتا ہے تو گو آنکھوں میں آنسو ہوں مگر جیتنے والے کو مبارکباد پیش کرتا پایا جاتا ہے۔ ابھی اپنی حالیہ ناکامی کے بعد ڈیموکریٹس کی امیدوار کملا دیوی ہیرس نے نہ صرف یہ کہ فون پر نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد پیش کی اور انہیں کہا کہ اب آپ صرف ریپبلکن کے نہیں پوری قوم کے صدر ہیں بلکہ ہارورڈ یونیورسٹی واشنگٹن میں قائم اپنے ہیڈ کوارٹر سے اپنے حمایتیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا مجھے معلوم ہے کہ ہمارے کچھ لوگ دکھی ہیں لیکن ہمیں اپنی شکست کو خوشی سے تسلیم کرنا ہوگا یہی جمہوریت کا حسن واصول ہے اور یہی سوچ جمہوریت کو آمریت سے الگ کرتی ہے، اندھیرے میں بھی نہیں گھبرایا کرتے کیونکہ اندھیرے میں ہی جگمگاتے ستارے دِکھتے ہیں اس لیے ہم پریشان ہونے کی بجائے ان سے امید کی روشنی لیتے ہیں اور نئی جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں جس سے ہماری ڈیموکریسی مضبوط ہو، ہمارا یہ عظیم ملک امریکا مضبوط ہو، پریزیڈنٹ ٹرمپ سے بات کرتے ہوئے کچھ اسی طرح کی گفتگو کے ساتھ صدر بائیڈن نے بھی جیتنے والے صدر کو مبارکباد پیش کی اور انھیں وائٹ ہاوس میں ملاقات کی دعوت دی، جو قوم اس وسعت نظری کا مظاہرہ کرے گی اسے زوال کیوں آئے گا؟