مجھے دعوت تو آئی جی سندھ غلام نبی میمن صاحب سے ملاقات سے قبل انکے ساتھ آئی جی آفس کی مسجد میں نمازمغرب کی باجماعت ادائیگی کی ملی تھی لیکن میں کوشش کے باوجود ٹریفک کے سبب وقت پر نہیں پہنچ سکا، لہذا اب میں آئی جی سندھ کے دفتر میں کھڑاکمرے کا جائزہ لے رہا تھا ، آئی جی صاحب کی کرسی کے سامنے ایک خوبصورت ورکنگ ٹیبل تھی جس کے ساتھ مہمانوں کے لیے دو کرسیاں رکھی گئی تھیں جبکہ سامنے دیوار پر بڑے سائز کا ٹی وی نصب تھا جس کے ذریعے کراچی سمیت سندھ کے حالات سے آگاہ رہنے کے لیے خبروں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے ، کمرے کے ایک طرف لائبریری تھی ،جبکہ اسی جانب مہمانوں سے گفتگو کے لیے صوفہ سیٹ رکھا گیا تھا۔ بہرحال ابھی میں جائزہ لینے میں مگن تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور آئی جی سندھ نپے تلے قدموں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے ، ابتدائی سلام دعا کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا تو میں نے کراچی میں ڈکیتی رہزنی اور موبائل چھیننے کی بڑھتی وارداتوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے سوال کیا تو غلام نبی میمن صاحب نے بتایا کہ روزمرہ کے ان جرائم کے خاتمے کے لیے سندھ پولیس پوری طرح کوشاں ہے ،ہماری پوری کوشش ہے کہ کسی طرح ان جرائم کا خاتمہ کیا جاسکے اور اگر کوئی جرم ہوبھی جاتا ہے تو مجرموں کو گرفتار کیا جاسکے ۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت کراچی ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی کا شہر ہے ،مہنگائی اور بے روزگاری بھی عروج پر ہے۔ جس کی وجہ سے بھی جرائم سرزد ہوتے ہیں تاہم پھر بھی کراچی میں ہونے والے جرائم پر کافی حد تک قابو پالیا گیاہے ۔ لاہور جہاں کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے وہاں گزشتہ سال دو لاکھ سے زائد مقدمات درج ہوئے جبکہ کراچی میں 75 ہزار مقدمات درج ہوئے ہیں ،کراچی میں پچھلی دو دہائیوں میں اتنے جرائم ہوئے ہیں کہ یہاں دوسرے شہروں کے مقابلے میں کم جرائم ہونے کے باوجود زیادہ لگتے ہیں جس کی وجہ ماضی کا وہ امیج ہے جسے ختم ہونے میں وقت لگے گا ۔آئی جی سندھ نے مزیدبتایا کہ کراچی کو لاہور اور اسلام آبا دکی طرز پر سیف سٹی بنانے کے منصوبے پر کام شرو ع ہوگیا ہے جس کے تحت کراچی میں بارہ ہزار کیمرے نصب کرنے کےساتھ ان کے لیے مانیٹرنگ سسٹم بھی قائم کیے جائیں گے تاکہ شہر میں جرائم کی شرح کو مزید کم کیا جاسکے ۔میں نے آئی جی سندھ سے دریافت کیا کہ کچے کے علاقے میں آئے روز لوگ اغوا ہوتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پورے ملک سے لوگ کچے کے علاقوں میں پہنچ کیسے جاتے ہیں جس پر آئی جی صاحب نے گہری سانس لی ، ان کے چہرے پر تشویش بھی تھی اور مسکراہٹ بھی ، انھوں نے پہلے کچے کے علاقے کو بہترین طریقے سے ڈسکرائب کیا ، پھر بولے کچے میں ہونے والے اغوا برائے تاوان کے واقعات بہت تشویشناک ہیں لیکن آپ کو حیرت ہوگی کچے کے ڈاکوئوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے افراد کی زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیںکچے کے ڈاکوئوں کی جانب سے خواتین کی جعلی آوازوں کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا جاتا ہے پھر انھیں ملاقات کے لیے کچے کے علاقے کے قریب شہروں میں بلایا جاتا ہے اور اغوا کرلیا جاتا ہے ، یا ایک اور طریقہ سستی گاڑیوں کی فروخت کا جھانسہ دیکر بلایا جاتا ہے جیسے پچاس لاکھ کی گاڑی تیس لاکھ میں فروخت کا اشتہار دے کر سادہ لوح کہہ لیں یا لالچی لوگ کہہ لیں وہ ان ڈاکوئوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر ان کے ہاتھوں اغوا ہوکر مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ اغوا برائے تاوان کے بڑھتے واقعات کے بعد ہم نے یہاں کی فون ریکارڈنگ شروع کردی ہے اور کئی دفعہ ہماری پولیس نے لوگوں کو بتایا ہے کہ آپ جس خاتون سے بات کررہے ہیں وہ کچے کے ڈاکو ہیں اور جعلی آواز میں آپ سے بات کررہے ہیں لہذا آپ نے ان کے بلانے پر جانا نہیں ہے لیکن افسوس کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ پولیس کے منع کرنے کے باوجود وہ اس خاتون سے ملنے کچے کے علاقے پہنچے اور اغوا ہوگئے ۔اس وقت تک پولیس آٹھ سو سے زائد افراد کو اغوا ہونے سے بچا چکی ہے جبکہ اب بھی تین سو لوگ ڈاکوئوں کی قید میں ہیں جنکی رہائی کے لیے کوششیں جاری ہیں ۔ میں نے آئی جی سندھ سے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شہریوں اور سرکاری افسران کی شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ پر سوال کیا تو آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایا کہ انھیں اس طرح کی کئی شکایتیں ملی ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایماندار شخص کو اہم عہدے دیئے جائیں لیکن جو شکایتیں ہمیں ملتی ہیں ان پر تحقیق کرکے کارروائیا ں بھی کرتے ہیں اور سد باب بھی کرتے ہیں ۔وقت کافی گزرچکا تھا لہٰذاآئی جی صاحب کو خدا حافظ کہا اور واپسی کی راہ لی ۔