• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر گزشتہ روز خود کش حملے میں کم از کم 26افراد کے جاں بحق اور 62کے زخمی ہونے کے سانحہ نے پوری قوم کو شدید غم و اندوہ کیساتھ اس تشویش میں بھی مبتلا کردیا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے پورے ملک خصوصاً شدید طور پر متاثر صوبوں بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جاری قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مسلسل آپریشنوں اور ہمارے جوانوں کی قیمتی جانوں کی بڑی تعداد میں قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کی کم و بیش دو ڈھائی سال سے جاری نئی لہر قابو میں کیوں نہیں آرہی ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ پاکستانی قوم کیلئے نیا نہیں، اس کا سلسلہ پچھلے کئی عشروں سے جاری ہے لیکن گزشتہ دہائی میں دو بڑے فوجی آپریشنوں کے بعد ایسی کارروائیوں کا سلسلہ تقریباً بند ہوگیا تھا لہٰذا ضروری ہے کہ اس فتنے کے دوبارہ سر اٹھانے کے اسباب کا گہرائی اور جامعیت کے ساتھ تجزیہ کرکے حالات کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی وضع کی جائے ۔ ہر نئی واردات کے بعد سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے محض مذمتی بیانات اور دہشت گردی کی کمر توڑ دینے کے اعلانات قوم کیلئے اسی وقت باعث اطمینان ہوسکتے ہیں جب دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کیے جانیوالے اقدامات سے عملی صورتحال میں کوئی واضح بہتری بھی نظر آئے۔ دو ماہ پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزارت داخلہ نے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھاکہ صرف گزشتہ دو سال کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں مجموعی طور پر 37سو 58 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جبکہ 2020ءسے اب تک غیرملکی شہریوں کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے آٹھ واقعات میں 12غیر ملکی باشندے قتل ہوئے ہیں۔2ستمبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کروائی گئی تفصیلات میں بتایا گیا کہ صرف گزشتہ سال کے دوران ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے دو ہزار 75واقعات پیش آئے۔ 2020ءسے 2024ءتک غیرملکی باشندوں پر ہونیوالے آٹھ حملوں میں 12غیرملکیوں سمیت مجموعی طور پر 62افراد ہلاک جبکہ 38 زخمی ہوئے ہیں۔ 2024ءکی پہلی سہ ماہی کے دوران ملک بھر میں 2208انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں 89دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ 328کو گرفتار کیا گیا ۔ قابل غور بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں کوئی نمایاں کمی کیوں واقع نہیں ہورہی۔کیا محض طاقت کے استعمال سے اس مسئلے کا حل ہونا ممکن ہے یا ماضی کی طرح بات چیت کے راستے بھی کھلے رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے چین، روس، بھارت، ایران، ترکی ، قطر سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کے روابط تیزی سے بڑھ رہے ہیں لیکن پاک افغان تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں جبکہ دونوں ملک ایک دور میں یک جان دو قالب رہ چکے ہیں۔ کیا نگراں دور میں ایک ماہ کے اندر 17لاکھ افغان مہاجروں کو ملک سے نکالنے کی ناکام مہم چلانا درست تھا یا ہمیں اس کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔کیا کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خاتمے میں افغان حکومت کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کا ترک کردیا جانا مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہوا ہے یا نتائج برعکس رہے ہیں۔ کیا پاک افغان کشیدگی کے خاتمے میں چین سے مدد لی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی وزارت اعلیٰ کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں سے بات چیت کے ذریعے جس طرح مثبت نتائج حاصل کیے گئے تھے، کیاپھر ایسا نہیں ہوسکتا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت وسیع تر مشاورت کے ذریعے ان حقائق کی روشنی میں درپیش چیلنج سے نمٹنے کی خاطر بہترحکمت عملی وضع کرے کیونکہ بظاہر موجودہ حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی ہے ۔

تازہ ترین