1924 ء کا سال راقم الحروف کیلئے خوشگوار سال ہے کہ اس برس اسکی تین بہت پیاری اور ہر دلعزیز شخصیات اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائیں، جن میں سے ایک جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال تھے جو اپنی پیدائش کے سال کو اسلئے بھی اہم خیال کرتے تھے کہ 1924ء میں اتاترک نےخلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کو منوایا تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال بڑے فخر اور محبت بھرے پیرائے میں بتایا کرتے تھے کہ اقبال برصغیر جنوبی ایشیا میں وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے بڑھ چڑھ کر اتاترک کے اس جدید سیکولر جمہوری انقلاب کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ 1924 میں جب اتاترک نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا تو اقبال نے اس اقدام کی حمایت میں پرزور دلائل پیش کئے تھے۔ اس پس منظر میں اسی برس وہ میری (ڈاکٹر جاوید اقبال کی) پیدائش کو بھی نیک شگون خیال کرتے تھے، اپنی کتاب’’جاوید نامہ‘‘ میں اقبال نے میرے متعلق جو تمنائیں کی ہیں وہ بھی اسی مناسبت سے ہیں۔ اقبال کی اتاترک سے اپنائیت اس حد تک تھی کہ جب ڈربن جنوبی افریقہ کے مسلمانوں نے انہیں یہ کہا کہ ہم نے اپنی تمام مساجد میں آپ کی درازی عمر کیلئے دعا کروائی ہے تو اقبال بستر مرگ سے بولے کہ میں نے جو کام کرنا تھا وہ کر چکا آپ اتاترک کیلئے دعا کریں۔ اقبال اتاترک کے انقلاب کو تمام مسلم اقوام کیلئے بطور رول ماڈل پیش کرتے تھے۔ درویش کی یہ تمنا تھی کہ سال 2024 ء کو قومی سطح پر جشن صد سالہ ترک انقلاب کی حیثیت سے منایا جاتا لیکن شاید موجودہ ترک حکومت اس حوالے سے زیادہ گرمجوشی نہیں رکھتی۔ بہرکیف سیاسی حالات میں جتنا بھی ردوبدل آجائے جدید ترکی میں اتاترک کی حیثیت وہی رہیگی جو امریکا میں جارج واشنگٹن، انڈیا میں مہاتما گاندھی اور جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی ہے۔ عصری تقاضوں کی مناسبت سے ہر قوم کی نئی نسلوں کا یہ مسلمہ حق ہے کہ وہ اپنے حالات و ضروریات کی مطابقت جو تبدیلیاں ضروری سمجھیں وہ ضرور لائیں۔ ابراہم لنکن نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’مرے ہوؤں کا یہ حق نہیں کہ وہ زندوں پر حکومت کریں‘‘ اس سے بڑی زیادتی ہو ہی نہیں سکتی کہ نئی نسلوں کو ماضی کا یرغمال بنا دیا جائے خواہ وہ ماضی کتنا ہی سحر انگیز کیوں نہ ہو، تاہم اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم لوگ نئے تجربات کا شوق پالتے ہوئے اپنی قوم کو بلاضرورت و جواز لایعنی لیباٹریوں میں الجھائے رکھیں قدامت پسندی جتنی تباہ کن جامد چیز ہے اتنی ہی ناپسندیدہ حرکت ماضی کے تجربات سے روشنی نہ لینا ہے اس حوالے سے زندہ ومہذب اقوام کھلا مباحثہ کرواتی ہیں۔ ہمیں جہاں اپنے محسنوں کا احترام ہونا چاہئے وہیں اسلاف پرستی کو ایک نفسیاتی بیماری اور فکری جمود کا سمبل قرار دینا چاہئے۔ آج ترکی میں اگر کمال اتا ترک کی شخصیت اور خدمات یا کارناموں کا کھلے بندوں تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے یا انڈیا میں مہاتما گاندھی کی شخصیت اور کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کیا جا سکتا ہے تو اس آزادی فکر کی تحسین ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اپنی اعلیٰ مقام پر فائز شخصیات یا ہستیوں اور انکی کار گزاری کا بھی اسی طرح منطقی استدلال کے ساتھ تنقیدی جائزہ لینے کا کم از کم میڈیا کو پورا حق ملنا چاہیے تاکہ حقائق دلائل کیساتھ قوم کے سامنے آئیں۔درویش کی نظر میں کسی بھی قوم کیلئے بت پرستی اتنی خطرناک نہیں جتنی کہ شخصیت پرستی ہے لہٰذا ہر زندہ قوم کو اس سے چھٹکارا پانا لازم ہے لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان بڑی شخصیات کی خوبیاں بیان کرنے میں بخل برتیں جنہوں نے اپنی اپنی فیلڈ میں بہترین انسانی خدمات سرانجام دیں۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال انہی میں سے ایک ہیں درویش کی خوش قسمتی ہے کہ اسے دو دہائیوں تک ان کی اپنائیت و رفاقت نصیب رہی ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جسکی تفصیل الگ سے بیان کی جائیگی۔ سال 1924ء میں پیدا ہونیوالی دیگر شخصیات میں بھارتی پرائم منسٹر انڈیا اٹل بہاری واجپائی، امریکی صدر جمی کارٹر اور جارج بش سینئر ہیں، پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق بھی سن 24ء کی پیدائش تھے، انڈین اداکار راج کپور اور درویش کے پسندیدہ ترین گائیک رفیع صاحب، بھی 1924میں پیدا ہوئے ۔ 2024 کو ان شخصیات کے شایانِ شان جشن صد سالہ کی حیثیت سے منایا جانا چاہئے تھا۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں ان شخصیات کی جدوجہد اور اپنی اپنی فیلڈ میں خدمات کا احاطہ کیا جانا بنتا تھا مگر غور طلب بات ہے کہ آخر ہمارا میڈیا اپنے اندر اتنی وسعت کیوں نہیں رکھتا؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے لوگوں کو سوائے چند ایک افراد کی جگالی کے کچھ سجھائی نہیں دیتا ڈاکٹر جاوید اقبال کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کم از کم اپنے تئیں اقبال کا بت نہیں بننے دیا اور نہ ہی خود انہوں نے اسکا مجاور بننا پسند کیا بلکہ فکراقبال کو قدامت پسندی کی بجائے جدیدیت میں ڈھالنے کی کوشش کی۔