پاکستان بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے کروڑوں باسیوں کا پسندیدہ ترین کھیل کرکٹ ہے جو سال کے ہر موسم میں یکساں طور بوڑھے، جوان اور بچوں میں مقبولیت کی انتہا پر رہتا ہے۔ آئی سی سی کی جانب سے پاکستان کو لگ بھگ تین دہائیوں میں پہلی بار چیمپئنز ٹرافی 2025ء کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تو پاکستان میں شائقینِ کرکٹ خوشی سے جھوم اٹھے کہ وہ دو روایتی حریف پاکستان اور بھارت کو آئندہ برس فروری مارچ میں اپنی سرزمین پر ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھیں گے، پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی زور و شور سے تیاریاں شروع کردیں، چیئرمین پی سی بی اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کرکٹ اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش اور ایسے زبردست حفاظتی انتظامات یقینی بنائے کہ ہر کوئی عش عش کراُٹھا، تاہم بدقسمتی سے آٹھ نومبر کو میڈیا کی زینت بننے والی ایک خبر نے تو جیسے کرکٹ شائقین کی امنگوں پر پانی پھیر دیا، بھارتی میڈیا کے مطابق انڈین کرکٹ ٹیم چیمپئنز ٹرافی 2025ء میں میںشرکت کیلئے پاکستان نہیں جائیگی، اس خبر کے منظرعام پر آتے ہی دونوں ممالک کے میڈیا پر ایک بھونچال آگیا اور پھر اگلے روز بھارتی کرکٹ بورڈ کی جانب سے تصدیق کردی گئی کہ آئی سی سی کے توسط سے پی سی بی کواس فیصلے کے بارے میں باضابطہ مطلع کر دیاگیا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان میں ہونیوالی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت سے انکار سے جہاں دونوں ممالک کے امن پسند حلقوں کو دھچکا پہنچا ہے وہیں دو حریف ممالک کے مابین کشیدگی نے عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی ہے، بھارت کے بلاجواز فیصلے نے آئی سی سی کوبھی امتحان میں ڈال دیا ہے کہ پاکستان تو ایک ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ماضی میں دوطرفہ کشیدگی کے باوجود کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجتا رہا ہے لیکن جواب میں بھارت کی جانب سے جذبہ خیرسگالی کا مثبت جواب نہیں دیا جارہا، بھارت کی عدم شرکت سے آئی سی سی کوشدید نوعیت کا مالی نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے، حالیہ تنازع کے بعد ٹکٹ فروخت، نشریاتی حقوق اور اسپانسرز پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق آئی سی سی اپنی ساکھ بچانے کیلئے ایک ہائبرڈ ماڈل پر غور کررہی ہے جسکے مطابق کچھ میچ پاکستان میں اور باقی متحدہ عرب امارات یا سری لنکا میں کھیلے جائیں، تاہم پاکستان نے سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسی کسی تجویز کو ماننے سے انکار کردیا ہے اورمائنس انڈیا فارمولے پرقانونی مشاورت شروع کردی ہے، سرحد پارمیڈیا کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے آئی سی سی کی تجویز پر عمل نہیں کیا تو ٹورنامنٹ کومکمل طور پر جنوبی افریقہ میں منتقل کیا جا سکتا ہے، یہ خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اگر بھارت کے ایما پر ایسا کچھ ہوا تو پاکستان مستقبل میں بھارت کیساتھ تمام ٹورنامنٹس میں شرکت کا مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرسکتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پی سی بی نے آئی سی سی سے تحریری طور پر بھارت کے انکار کی وجوہات اور شواہد فراہم کرنے کا بھی کہا ہے، دوسری طرف دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز کی جانب سے بھی کسی ایک ملک کے بلاوجہ اعتراض کی وجہ سے ٹورنامنٹ کی منتقلی پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور حالیہ تنازع کے بعدآئی سی سی ممبر ممالک کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کا شدید خدشہ ہے، کرکٹ کے میدان میں بدستور غیریقینی صورتحال نے دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کو شدید ٹینشن کا شکار کردیا ہے اور تیزی سے بگڑتا تنازع عالمی کرکٹ کی ساکھ کو شدید مجروح کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پڑوسی ملک کی جانب سے حالیہ شدت پسندانہ اقدام کو کسی بھی باشعور سمجھدار انسان کی حمایت حاصل نہیں، کرما کے سال میں مودی سرکار کو مالک نے ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ اپنی نفرت کی سیاست اور جارحانہ پالیسیوں کو ترک کرکے علاقے میں امن کے فروغ کو اپنی ترجیح بنائیں۔ میں نے چند سال قبل اپنے دورہ بھارت کے دوران اس وقت کی وزیرخارجہ سشما سوراج کو پاکستان کی جانب سے امن کا سندیسہ دیا تھا،آج بھی میرا یہی اصولی موقف ہے کہ کبھی بھی ڈائیلاگ کا دروازہ بند نہ کیا جائے اور کھیلوں کے میدان میں تو کسی صورت نفرت کا پرچار نہ کیا جائے۔ جب حالیہ چند برسوں میں دنیا کی تمام بڑی کرکٹ ٹیمیں بشمول آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں، دنیا کے تمام ممالک چیمپئنز ٹرافی 2025میں شرکت کیلئے پاکستان آنے پر آمادہ ہیں تو کیا صرف بھارتی ٹیم کو ہی سیکورٹی خدشات لاحق ہیں؟اس حقیقت کو کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے کہ سرحد پار سے جب بھی کوئی پاکستان آتا ہے وہ ہمیشہ پاکستانیوں کی پرخلوص مہمان نوازی کے گُن گاتا ہے۔پردھان منتری نریندرمودی اپنے آپ کو دھارمک کہلواتے ہیں، میراان سے سوال ہے کہ کیا ہندو دھرم میں اپنے پڑوسی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ سناتن دھرم میں پڑوسی چاہے اچھا ہو یا برا، اسکا خاص خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے،ہندوستان کی ہزاروں سالہ قدیم تاریخ برداشت، رواداری اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ بھارتی میڈیا میں یہ دلچسپ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ شدید کشیدگی کے ماحول میں صرف ایک براہ راست فون کال بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان لاسکتی ہے اور وہ کال ہے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نریندر مودی کو، اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں سابق دورِ حکومت میں مودی کے غیرعلانیہ دورہِ لاہور کا بطور خاص تذکرہ کیا جارہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر چیمپئنز ٹرافی 2025 کا میگا ایونٹ عالمی منظر نامے میں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے کیلئے بہترین سنہری موقع ہے تو یہ پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کا بھی باعث بن سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی اعلیٰ قیادت معاملے کی سنگینی کو سمجھے اور کھیلوں کو متنازع بنانے سے گریز کرے۔ میری مالک سے دعا ہے کہ وہ میری پاک سرزمین پر دونوں پڑوسی ممالک کے مابین کرکٹ میچ دیکھنے کی خواہش جلد پوری کرے۔