• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اورآئی ایم ایف وفدکے درمیان جمعے کو پانچ روزہ مذاکرات مکمل ہو گئے جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کو آئندہ سال یکم جنوری سے صوبوں میں زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔آئی ایم ایف کو دوست ممالک سے مالی تعاون کے بندوبست کی ضمانت بھی دی گئی ہے اور چاروں صوبوں کے بجٹ سرپلس کی شرط بھی پوری کر دی گئی ہے جبکہ آئی ایم ایف وفد نے شرائط پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پر 12 ہزار 970 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے کوششیں تیز کرنے پر زور دیاہے۔ بلاشبہ پاکستانی معیشت قرضوں کی دلدل سے اسی صورت میں نجات پاسکتی ہے کہ ہماری آمدنی اخراجات سے زیادہ ہوجائے جبکہ ہمارے اخراجات کم و بیش ہر دور ہی میں آمدنی سے کہیں زیادہ رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے اور قرضوں کی ادائیگی بھی مزید قرض لے کر کی جارہی ہے۔ اس جنجال سے نکلنے کیلئے تمام غیر ضروری اخراجات کا بند کیا جانا اورآمدنی کو بڑھانا لازمی ہے۔ معاشی طور پر خود کفیل ملک شہریوں کی آمدنی پر عائد ٹیکسوں سے چلتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں تنخواہ دار طبقے کے سوا بیشتر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ یا تو ٹیکس کے دائرے سے مکمل طور پر باہر ہیں یا اپنی اصل آمدنی کی نسبت برائے نام ٹیکس دیتے ہیں۔ ان شعبوں میں زراعت خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔ قومی آمدنی میں زراعت کا حصہ کم ازکم 20فی صد اور بعض ذرائع کے مطابق24 فی صد تک ہے لیکن حکومت کی مجموعی ٹیکس آمدنی میں اس شعبے کا حصہ بمشکل 0.1 فی صد ہے۔ ٹیکس نیٹ سے بڑی حد تک باہر دیگر شعبوں میں خوردہ فروش،ٹرانسپورٹرز ، رئیل اسٹیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان اکنامک ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 میں تمام صوبائی حکومتوں نے مجموعی زرعی انکم ٹیکس صرف 2.4 ارب روپے اکھٹا کیا حالاں کہ زرعی شعبے کی صلاحیت 800 ارب روپے تک ہے اور اگر صوبوں کی طرف سے اس ٹیکس کی مناسب وصولی کی جائے تو وفاق کے مجموعی مالیاتی خسارے کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔اس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے جو اب تک 9فی صد سے اوپر نہیں جاسکا ہے جبکہ معاشی بحالی کیلئے اس کا13 فی صد سے زیادہ ہونا ضروری ہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد زراعت کیونکہ صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اس لیے زرعی آمدنی پر ٹیکس وصول کرنا بھی صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت پچھلے کئی عشروں سے شدت سے محسوس کی جارہی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے جس کی اصل وجہ قانون ساز اداروں اور بااثر طبقات میں بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کا غلبہ ہے جو اپنی ملی بھگت سے ایسی ہر کوشش کو ناکام بناتے چلے آرہے ہیں۔ تاہم اب زراعت سمیت ٹیکس نیٹ سے باہر تمام شعبوں سے انکم ٹیکس کی مکمل وصولی ہماری قومی بقا و سلامتی کیلئے ناگزیر ہے۔ ٹیکس دہندگان میں لاکھوں نئے افراد کی شمولیت کو یقینی بناکر تنخواہ داروں سمیت تمام ٹیکس دہندگان کیلئے ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی ممکن ہوگی۔ ٹیکس وصولی کیلئے سزا کی دھمکیوں کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ٹیکس دینے والوں کے لیے مختلف سہولتوں کی فراہمی ٹیکس نیٹ بڑھانے میں زیادہ معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ زراعت، تجارت، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں سے ٹیکس وصولی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا اہتمام بھی ہونا چاہیے کہ اشیاء و خدمات کی قیمتوںمیں اضافے کے ذریعے سارا بوجھ عام صارف پر منتقل نہ کردیا جائے۔ معاشی بہتری کیلئے کرپشن کا خاتمہ، پورے نظام کی ڈیجیٹائزیشن ، سرکاری اخراجات میں آخری ممکنہ حد تک کمی نیز اشرافیہ کی مراعات کی بندش بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین