اسلام آباد ( صالح ظافر) حکومت پاکستان امریکی قانون سازوں کی جانب سے سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جوبائیڈن کو عمران خان کی قید کے حوالے سے لکھے گئے خط کو یکسر کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ امریکی انتظامیہ اقتدار کی منتقلی میں مصروف ہے، ایسے میں یہ خط وکتابت بے سود مشق معلوم ہوتی ہے،دفتر خارجہ نے ایک دوسرے ملک کے قانون سازوں کی جانب سے اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا۔ دریں اثناء حکومت کے ذرائع نے ہفتے کی شام دی نیوز/جنگ سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد میں امریکی سفیر کے بارے میں بیان پر افسوس کا اظہار کیا۔ ذرائع نے کہا کہ ایسے پیشہ ور سفارت کاروں کو نشانہ بنانا جو اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں، کسی طور پر قابل قبول نہیں کہا جا سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ماہ کے دوران امریکی قانون سازوں کے ایک گروپ نے دوسری بار قید عمران خان کی حمایت کے لیے ایک خط لکھا ہے، جس میں صدر جو بائیڈن پر ان کی فوری رہائی کے لیے زور دیا گیا ہے۔دفتر خارجہ نے اس قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے سیاسی نظام اور انتخابی عمل کی غلط تفہیم پر مبنی ہے۔ ہفتے کے روز اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر خط کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی نے کہا کہ امریکی ایوان نمائندگان کے 46 اراکین، جن میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیوں کے اراکین شامل ہیں، نےسبکدوش ہونے والے صدر(lame duck) جو بائیڈن کو خط لکھ کر عمران خان کی رہائی کے لیے فوری اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے کردار پر بھی تنقید کی اور انکی ناکامی پر سوال اٹھایا کہ وہ پاکستانی امریکی کمیونٹی کے خدشات کو اپنے کام میں شامل کرنے میں ناکام رہے، جس میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، انسانی حقوق کی بحالی، یا جمہوری اصولوں کے احترام کی حمایت شامل ہے۔ایک سوال کے جواب میں دفتر خارجہ کی ترجمان محترمہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ امریکی انتظامیہ منتقلی کے عمل میں مصروف ہے، اور یہ تصور کرنا آسان ہے کہ ایسی خط و کتابت امریکی انتظامیہ کے متعلقہ حلقوں میں قابل توجہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا،’’یہ ایک بے سود مشق معلوم ہوتی ہے۔‘‘