قومی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں گزشتہ روز اختتام پذیر ہونے والے ہفتے میںمہنگائی کی شرح 4.16فیصد کی کم ترین سطح پر بتائی گئی ہے۔17شہروں کے 50بازاروں سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق 51روزمرہ اشیائے ضروریہ میں سے 24کی قیمتوں میں اضافہ، 6کی قیمتوں میں کمی جبکہ 21اشیاکے نرخ مستحکم رہے۔ مہنگی ہونے والی اشیا میں ٹماٹر 16.9فیصد، انڈے 5فیصد، لہسن، پیاز بیف اور مٹن 4.3، ایل پی جی 4.1جبکہ سرسوں کے تیل اورگھی کی قیمتیں 1.9فیصد بڑھی ہیں اور سبزی کےانتہائی بلند نرخوں میں کوئی لچک دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ صورتحال تنخواہ دار متوسط طبقے کے اشیائے خورد و نوش اور کچن کے دوسرے یومیہ اخراجات فی گھر کم از کم 500،جبکہ گوشت اور چکن پکانے کی صورت میں ایک تا ڈیڑھ ہزار روپے کے خرچے کو ظاہر کر رہی ہے۔ ان کنبوں کی آمدنی اوسطاً 40ہزار تا50ہزار روپے ماہانہ ہے۔ دودھ، دہی اور بیکری کا سامان اس کے علاوہ ہے۔ یہ لوگ مکان کا کرایہ، بچوں کی تعلیم، صحت اور روزمرہ کے دیگر اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، جنھیں پورا کرنے کیلئے ان کی اکثریت دوہری ملازمتیں کرنے پر مجبور ہے۔ تاہم آبادی کا سب سے بڑا اورغریب طبقہ ان سب سے محروم ہے، دوسری طرف گزشتہ پانچ برسوں کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 40فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ملک میں رشوت اور بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہےجو دیرینہ سماجی اور معاشی مسئلہ چلا آہا ہے۔ کمزور انتظامی ڈھانچے، سیاسی عدم استحکام، احتساب کے فقدان سے مائیکرو اور میکرو، دونوں سطحوں پر معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ملک میں معاشی اصلاحات لانے کا آغاز کیا ہے، جس کا مطمح نظر روزگار، فی کس آمدنی میں اضافہ اور مہنگائی سے مستقل نجات ہونا چاہئے۔