نئے زمانوں کے بُت کدوں میں
یہ جلترنگ سی جو بج رہی ہے
ہر ایک گھنٹی مفاد کی ہے
تمیز اوڑھے فساد کی ہے
یہ امنِ عالم کا درس دیتی
ہر ایک گھنٹی سے خون ٹپکے
ہے شور ایسا کہ الاماں ہے
یہ شورِ مجرم پناہ بنا ہے
بڑے بُتوں نے پناہ دے کر
جو گِدھ تھا پالا
وہ وحشی بن کر
سحر کی دھند میں جھپٹ پڑا ہے
وہ ایک ناتواں سے طائر کو پنجہ مارکے
گِرا چُکا ہے
اور اُس کے بچوں کو کھا چُکا ہے
وہ خوں سے لت پت
کراہتا پنچھی،تو جاں بلب ہے
یہ باقی طائر بھی اپنی چونچیں
پَروں میں دے کر، جُھکے کھڑے ہیں
ہے سوچ ان کی کہ
ٍٍکہ ہم نشانہ نہیں بنیں گے
کہ گدھ نہ ہم کو شکار کر لے
مگر کرے گا،
یہ میرے رب کی روایتیں ہیں
ٍٍوہی جو ظالم کا ساتھی بن کر
نہ ظلم روکے
وہ خیریت سے نہیں رہے گا!
وہ عافیت میں نہیں رہے گا!
(ثریا طارق عبّاسی، اسلام آباد)