• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئینہ دیکھ، اپنا سا منھ لے کے رہ گئے
صاحب کودل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا !
گزشتہ دنوں وزیر اعظم اور سابق صدر مملکت کی ملاقات کی خبریں پڑھ کر اور الیکڑونک میڈیا پر تصویریں دیکھ کرنہ جانے کیوں مرزا غالب کا مندرجہ بالا شعر میرے ذہن میں آگیا ، کافی اینکر حضرات نے اس موقع پر جناب وزیر اعظم اوروزیراعلیٰ کے سابقہ بیانات اور تقاریر کی کلپنگ بھی میڈیا پر دکھائیں۔ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور بے اصولی سیاست میں کوئی حرف آغاز ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حرف آخر صرف ’’ ڈنگ پٹاؤ ‘‘ کی سیاست کاسہ لیسوں کے ذریعہ سرمائے کے زور پر ہوتی ہے اوراقتدار حاصل کرنے کیلئے نظریں پنٹاگون کی پالیسیوں اور اشیرباد پر رکھنی پڑتی ہیں۔ ’’ جسے پیا چاہے وہی سہاگن ‘‘ کبھی انکی باری، کبھی انکی باری، ساری گیم باریوں کی ہے اور90کی دہائی سے ہم میوزیکل چیر کا گیم دیکھ رہے ہیں بیچ میں سات ، آٹھ سال کے لئے مشرف آگیا تھا مگر پھر اس کا کام بھی اتر گیا اور اس کے ہاتھوں حلف لینے والے اسی کے تماشائی بن گئے۔ آج صبح صبح کسی نے فیس بک پر چوہدری افتخار کی تصویر بھیجی ہے وہ مشرف کے ہاتھوں حلف لے رہے ہیںکسی نے سچ کہا ہے کہ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں گزشتہ دنوں میری پاکستان سے غیر حاضری کے دوران جماعت اسلامی کے امیر کی تبدیلی پارٹی کے اندر ہونے والے انتخابات کے ذریعے عمل میں آئی اور جناب منور حسن کی جگہ جناب سراج الحق نئے امیر منتخب ہوگئے ۔ جماعت اسلامی کا امیر منتخب کرنے کا ایک اپنا طریقہ کار ہےاور انکے 32ہزار کارکنوں کا حلقہ انتخاب ہے یعنی صرف32ہزار کارکن خفیہ ووٹ دیکر اپنے امیر کاچناؤ کرتے ہیں۔ یہ جماعت کے پانچویں امیر ہیں1972میں مولانا مودودی جوخود عالم دین تھے انہوں نے جماعت کی سربراہی سے علیحدگی اختیار کرکے میاں طفیل محمد کوجماعت کا امیر مقرر کیا تھا اس کے بعد1988میں انہوں نے جماعت کی سربراہی سے علیحدگی اختیار کی اور قاضی حسین احمد منتخب ہوئے جو کہ2009تک سربراہ رہے اور ان کے بعد جناب منور حسن امیر بنے، خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ تعلیم یافتہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، کوئی موروثی سیاست نہیں،نیک اور دیندار لوگوں کا ایک گروہ ہے جو اپنی پارٹی کے نظریات پر مکمل طور پر کاربند ہے اب جناب لیاقت بلوچ جوکہ سیکرٹری جنرل ہیں انہوں نے بھی اپنے فرائض سے خرابی صحت کی بنیاد پر معذرت کرلی ہے اورکراچی سے ڈاکٹر معراج الہدیٰ کانام سننے میں آرہا ہے میرا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں لیکن ایک عام شہری ہونے کی حیثیت سے جماعت کے اندر لیڈر شپ کے چنائواوراس کے طریقہ کار کا معترف ہوں یعنی تعریف کرتا ہوا اور اس طریقے کوپسند کرتا ہوں آج یہ سطور لکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیاں بھی ان سے سبق حاصل کریں اور اپنے اندر لیڈر مقرر کرنے کے لئے اس طرح کا کوئی طریقہ اختیار کریں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں جناب الطاف حسین اور عمران خان کی بھی اس حوالے سے تعریف کی تھی کہ انہوں نے بھی اپنی جماعتوں میں لوئر مڈل کلاس کے تعلیم یافتہ لوگوں کوٹکٹ دیئے اور اسمبلیوں میں منتخب کروایا، الطاف بھائی کی پارٹی میں تو امیدوار کوایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا، یہاں تک کہ فارم خریدنے کے پیسے بھی ایم کیو ایم دیتی ہے زرضمانت بھی پارٹی کے وکلا اور ساتھی امیدوار کے ساتھ جاتے ہیں اور اپنا خرچ خود برداشت کرتے ہیں الطاف بھائی نے بھی جماعت اسلامی کی طرح موروثی سیاست کے دروازے بند کردیئے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی بات ہے ہندوستان میں بھی کانگریس میں موروثی سیاست چل رہی ہے نہرو کے بعد اندراگاندھی اور پھر اس کے بعد راجیو گاندھی اور اس کے بعد اس کی بیوہ سونیا گاندھی اور اب بیٹا راہول کانگریس پر قابض ہیں لیکن ا ن کے ہاں جمہوری اقدار کی بھی قدر ہے ایک خاندان ضرور پارٹی کے باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے لیکن ون مین شو نہیں ہے ہمارے ہاں تو حکومتی پارٹی میں ون مین شو ہوتا ہے باقی سارے لوگ صرف ہاں کرنے کے لئے ہوتے ہیں جس طرح ہمارے معاشرے میں دلہن نکاح کے وقت سر اور نظریں جھکا کرہاں کرتی ہے۔ یہ تمام باتیں لکھنے کا مقصد کسی پر بیجا تنقید کرنا نہیں ہے چونکہ میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں میرا فرض بنتا ہے کہ جانے سے پہلے معاشرے کوکچھ دے جاؤں فی الحال میرے پاس دینے کے لئے کوئی میڑیل چیز تونہیں ہے لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کاشعور تو بیدار کرسکتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ لکھنے سے میری زندگی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی لیکن ایک بیج بودینے سے کچھ کونپلیں تونکل آئیں گی اور ہوسکتا ہے کہ کوئی کونپل تناور درخت کاروپ دھار لے اور ہمارے ملک میں پاک صاف تعلیم یافتہ مخلص اور ایماندار سیاستدانوں کی کھیپ آجائے جو میرٹ پر لوگوں کونوکریاں اور تاجروں کو بینکوں کے قرضے دے لوٹ کھسوٹ سے پاک معاشرہ وجود میں آجائے اور عزت کا معیار دولت کی بجائے میرٹ ہوجائے یہ سب کچھ ناممکن نہیں ہے میں بہت پر امید رہتا ہوں بقول غالب
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
آج لاہور سے کسی نے فیس بک پر میسج بھیج کرکہا ہے کہ بچوں کی کسٹڈی کے کیسوں میں عدالتوں میں والدکے ساتھ بچے کی ملاقات کا طریقہ اطمینان بخش نہیں اور عدالتوں نے والد کے ہوتے ہوئے سینکڑوں بچوں کو یتیم بنایا ہوا ہے اور وہ والد سے ملاقات کے بغیر ہی پل رہے ہیں۔ پیغام بھیجنے والے نے مشورہ بھی مانگا ہے اور فرمائش کی ہے کہ اپنے کالم میں اس موضوع پر کچھ لکھوں۔ عرض یہ ہے کہ گارجین اینڈ وارڈن کاقانون ہمارے ملک میں نافذ ہے اور اچھا قانون ہے صرف فیملی جج صاحبان کو اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرنے کے لئے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سے تھوڑی سے ٹریننگ کی ضرورت ہے میں بھی سندھ ہائیکورٹ کاسابق جج ہوں اور اس طرح کے کیسوں کے فیصلے کرتا رہا ہوں جوکہ قانون کی کتابوں میں محفوظ ہیں قانون کے مطابق بچے کودونوں والدین کی ضرورت ہوتی ہے بچے کے اخراجات برداشت کرنا والد کی ذمہ داری ہے اگر ماں نے دوسری شادی نہیں کی توعموماً بچے کی کسٹڈی ماں کے پاس ہی رہتی ہے اور والد کو ملاقات کا حق ہے جوکہ عدالت دفعہ12کے تحت دیتی ہے اب اس حق کو دینے کا طریقہ اطمینان بخش نہیں ہے میرا مشورہ ہے کہ جہاں والد تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر بہتر ہو وہاں پر بچے کوجمعہ کے روز اسکول سے والد بچے کے ساتھ دن گزارے اسےگھمائے پھرائے اتوار کواسکول کاہوم ورک کروائے اور پھر اتوار کی شام چھ بجے ماں کے پاس خود چھوڑ کر آئے اس طریقہ سے بچے کی بہتر ذہنی نشوونما ہوجائے گی، ہفتے کے پانچ دن بچہ ماں کے پاس رہے اس طریقے کواپنا کر دیکھیں بہتری ہوگی میں عدالتوں میں بھی کوشش کرتا رہو گا۔ آگے قسمت ہے آکر میں حفیظ جالندھری کے اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں
ہم ہی میں تھی کوئی بات یاد نہ تم کوآسکے
تم نے ہمیں بھلادیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
رونق بزم بن گئے لب پہ حکائیتں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے
تازہ ترین