لندن (پی اے) بجٹ میں اعلان کردہ کسانوں کے لئے وراثتی ٹیکس میں تبدیلی کے خلاف لندن میں ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔ وائٹ ہال پر مارچ کرنے والوں میں ٹی وی پریزینٹر جیریمی کلارکسن بھی شامل تھے، جنہوں نے کہا کہ یہ کسانوں کا خاتمہ ہے جبکہ انہوں نے حکومت سے اپنی سوچ بدلنے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ کسانوں کے خدشات کو سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اکثریت متاثر نہیں ہوگی۔ اپریل2026سے وراثت میں ملنے والے زرعی اثاثے، جن کی مالیت ایک ملین پاؤنڈز سے زیادہ ہے، جو کہ پہلے ٹیکس سے مستثنیٰ تھے، وہ اب20فیصد ٹیکس کے ذمہ دار ہوں گے۔ دیگر الاؤنسز کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شادی شدہ جوڑے یا سول پارٹنرشپ میں3 ملین پاؤنڈز تک کی مالیت پر مستثنیٰ ہوں گے۔ تاہم بہت سے کسانوں کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر اپنی زمین اور مویشیوں کے لحاظ سے وہ اثاثے سے مالا مال ہیں مگر وہ نقد رقم کے لحاظ سے غریب ہیں اور تبدیلیوں کا مطلب یہ ہوگا کہ ٹیکس ادا کرنے کیلئے انہیں فروخت کرنا پڑے گا۔ احتجاج سے پہلے تقریباً 1800 نیشنل فارمرز یونین (این ایف یو) کے ارکان پارلیمنٹ کے قریب ایم پیزکی ایک بڑی لابی کے حصے کے طور پر ملے۔ گروپ کے صدر ٹام بریڈشا نے ایک جذباتی تقریر کی، جس میں ٹیکس کی تبدیلیوں کو تباہ کن، کسانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے، غلط اور ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے مظاہرین کو بتایا کہ تبدیلیاں وہ تنکے ہیں، جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی۔ بعد ازاں اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیبر نے دوسری جنگ عظیم کے دوران کاشتکاری اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ کو تباہ کر دیا تھا۔ مسٹر بریڈشا نے مزید کہا کہ اگر ہمیں خوراک کی پیداوار سے مناسب مارجن ملتا ہے تو ہم مزید ٹیکس ادا کرنا پسند کریں گے لیکن اس وقت سپلائی چین ہمیں وہ ریٹرن نہیں دیتا، جو ہمیں وراثتی ٹیکس ادا کرنے کیلئے رقم بچانے کے قابل بنائے جو یہ حکومت اب لینا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیات کے سیکرٹری سٹیو ریڈ نے، جب وہ اپوزیشن میں تھے تو کہا تھا کہ لیبر زرعی املاک کے ریلیف کو تبدیل نہیں کرے گی۔ 2019 کے بعد سے سور فارمنگ کے اخراجات میں 54 فیصد، مویشیوں میں 44 فیصد اور اناج میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ خوراک، ایندھن اور کھاد کی قیمتیں اس شرح سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں جو کسان اپنی پیداوار پر وصول کر سکتے ہیں۔ بریگزٹ کے بعد سے کسانوں کو ملنے والی سبسڈیز میں بھی کمی آ رہی ہے۔ حکومتی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال ایک اوسط فارم نے تقریباً 45300 پاؤنڈز کا منافع کمایا حالانکہ اس اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایک سروے پر مبنی ہے، جس میں کم سے کم رقم لانے والے فارموں کو خارج کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ کے 210000 فارموں کی تعداد، جو وراثتی ٹیکس کی تبدیلی سے متاثر ہو سکتی ہے، اس پر بھی اختلاف ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ہر سال امیر ترین 500 اسٹیٹس کو متاثر کرے گی لیکن این ایف یو اور کنٹری لینڈ اینڈ بزنس ایسوسی ایشن (سی ایل اے ) نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک ملین پاؤنڈز سے زیادہ مالیت کے 70000 فارمز متاثر ہوسکتے ہیں۔ 2021 اور 2022 کے درمیان، 2.5 ملین پاؤنڈز سے زیادہ مالیت کے 117 فارم وراثت میں ملے تھے۔ ریڈ نے منگل کو کامنز دیہی امور کی کمیٹی کو بتایا کہ ٹیکس کی تبدیلیوں پر احتجاج کرنے والے بہت سے کسان پالیسی کے بارے میں غلط تھے اور انہوں نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ حکومت نے اس بات کو کم کیا ہے کہ کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ منگل کی تقریبات میں شرکت کرنے والوں میں گلوسٹر شائر کے لائیو سٹاک فارمر ڈیوڈ بارٹن بھی شامل تھے، جن کا اندازہ ہے کہ ان کا کاروبار جو کہ 1913 سے خاندان میں ہے، کے اثاثوں کی مالیت تقریباً 5 ملین پاؤنڈ ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ سال بہ سال زیادہ رقم نہیں کماتے۔ مسٹر بارٹن کو خدشہ ہے کہ وراثتی ٹیکس میں مجوزہ تبدیلیوں سے ان کے بیٹے کو 800000 پاؤنڈز کے بل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ احتجاج میں شامل دیگر لوگوں نے کہا کہ ٹیکس کے بلوں کی ادائیگی کیلئے انہیں اپنے فارم فروخت کرنا ہوں گے۔ یارکشائر سے تعلق رکھنے والی ساتویں نسل کی کسان جین، جس نے اپنا نام نہیں بتایا، نے پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اگر بجٹ منظور ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میں اپنے خاندانی فارم کا قبضہ حاصل نہیں کر سکوں گا، ہمیں ٹیکس ادا کرنے کیلئے اسے بیچنا پڑے گا۔ جیریمی کلارکسن، جو آکسفورڈ شائر میں ڈڈلی اسکواٹ فارم کے مالک ہیں، وہ ایمیزون سیریز کلارکسنز فارم میں شامل ہیں، نے کہا کہ ان کے خیال میں وراثتی ٹیکس میں تبدیلی آخری لمحات میں ایک بہت جلدی میں کیا گیا فیصلہ تھا۔