تحریر: انعام الحق نامی… برمنگھم بھلے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے اور وہ ان کے گرم سرد مزاج کو فوراً بھانپ جاتے ہیں لیکن پاکستانی حکومتی اور سیاسی معاملات میں بڑھتی عسکری ملاوٹ کی وجہ سے یہ ہاتھ اب عوام کی نبض سے بڑھتے بڑھتے ان کے گریبانوں تک پہنچ چکے ہیں۔ جمہوری عمل کی بجائے جب سے نقب زنی کے ذریعے حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوا ہے عوام کی حیثیت اس سارے عمل میں ثانوی ہو گئی ہے اور گملہ سیاستدان بھی عوام کی بجائے ’’جائے مخصوصہ‘‘ میں قبولیت حاصل کرنا اپنا متمعِ نظر بنا چکے ہیں۔ عوام کو فیصلہ سازی کے ہر عمل سے تو لاتعلق کر دیا گیا لیکن اس کھیل اور کھلاڑیوں کےلیے وسائل انہیں کی جیبوں سے نچوڑے جاتے ہیں۔ عوام کے پاس اب سوائے چیخ و پکار کے بچا ہی کچھ نہیں تھا لیکن اس چیخ و پکار کو بھی مقتدریہ اپنی نیند و آرام میں دخل اندازی سمجھتی ہے۔ آزاد کشمیر میں نافذ ہونے والا ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر ڈیننس 2024‘‘ اسی چیخ و پکار کا گلا دبانے کےسلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس ایکٹ کے نفاذ سے آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ وہ محض اسلام آباد کی پتلیاں ہیں جنہیں اپنے عوام اور ان کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں۔ صدارتی آرڈیننس کا ایک مقصد تو عوامی ایکشن کمیٹی جو بار بار ان کی نیند و آرام میں مخل ہو رہی ہے اسے قابو کرنا ہے تو دوسری طرف اپنے اصل آقاؤں کی خوشنودی اور ساباشی کاحصول بھی ہے۔ یہ آرڈیننس اپنے نام سمیت لفظ با لفظ اس ایکٹ کی کاپی ہے جو 8 ستمبر کو پاکستان میں عوامی چیخ و پکار کا گلا دبانے کیلئےایسی ہی عجلت میں نافذ کیا گیا تھا۔ حکومت آزاد کشمیر نے نہ جانے کس بنیاد پر اسے’’عوام کے بنیادی حقوق کا محافظ‘‘ قرار دیتے ہوئے راتوں رات صدرِ ریاست سے منظور کروا کر نافذ بھی کردیا۔ حالانکہ پاکستان میں اس کے نفاذ کے اگلے ہی دن ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے شہری حقوق پر حملہ قراردیا تھا اور ایک ہی ہفتے میں اسے کابینہ، سینٹ، قومی اسمبلی اور صدارتی منظوری کے مراحل سے گزارنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ہیومین رائٹس کے ایشین فورم نے بھی اسے پاکستان کے اپنے آئین کی دفعہ 16اور بین الاقوامی مسلمہ انسانی حقوق کے قوانین، جن کا پاکستان بحیثیت ریاست دستخطی ہے، سے متصادم قرار دیا تھا۔ لیکن حکومت آزاد کشمیر نے اس کے باوجود شاہ سے زیادہ پھرتی دکھائی اور اسے محض ایک ہی دن میں تیاری اور صدارتی منظوری کے مراحل سے گذار کر نافذ بھی کر دیا۔ حکومتِ آزاد کشمیر کا یہ قدم ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ان سفارشات اور تنبیہ کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے جو انہوں نے مئی میں عوامی ایکشن کمیٹی کے عوامی مارچ کے بعد کی تھیں۔ مئی میں ان کی مرتب کردہ رپورٹ میں حکومت آزاد کشمیر کو واضح طور پر طاقت کے استعمال سے گریز اور مذاکرات کے ذریعے جائز عوامی مطالبات تسلیم کرنے کا کہا گیا تھا۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ دوران احتجاج تشدد اور طاقت کا ناجائز استعمال کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن ان سفارشات پر عمل کروانے کی بجائے جناب صدر جنہیں عرف عام میں ’’قائد کشمیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، نے اس آرڈیننس پر دستخط کے بعد وزیرِ امور کشمیر کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ بیان داغا کہ ’’ہم بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کریں گے‘‘۔ یقین نہیں آرہا یہ وہی صدر ہیں جو ساری عمر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اسی طرح کے کالے قوانین کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ ’’قائد کشمیر‘‘ کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مستٰعفی ہو کر اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہو جاتے۔