• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دامن میں دو ہی تو قیمتی اثاثے ہیں ایک اسلامی نظریاتی کونسل اور دوسری رویت ہلال کمیٹی۔مگر یہ کم بخت لبرل ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اب کئی دنوں سے محض اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی زجر و توبیخ کا سلسلہ جاری ہے کہ وی پی این کو غیر شرعی قرار دے دیا گیا ہے۔حالانکہ اس کونسل کی تاریخ اتنی ہی پُرانی ہے جتنی کونسل مسلم لیگ کی۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے بنائے ہوئے آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت تین سال تھی مگر ایوب خان چاہتے تھے کہ آئین میں ترمیم کر کے اسمبلی کی مدت بڑھا دی جائے تاکہ قومی اسمبلی کے ارکان کا انتخاب صدارتی الیکشن کے بعد ہو۔ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہونے کے باوجود اسمبلی میں اپوزیشن خاصی مضبوط تھی اور دو تہائی اکثریت حاصل کرنا دشوار ہو رہا تھا۔ 156کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کیلئے 104ووٹ درکار تھے مگر حکومت کے پاس 6ووٹ کم تھے۔ گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم خان نے تین بنگالی ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے کیلئے راضی کیا جبکہ باقی تین ارکان کا بندوبست گورنر مغربی پاکستان، نواب آف کالا باغ امیر محمد خان نے کیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود کو مدرسے کیلئے چندہ دیا گیا اور سیکریٹری کمیونی کیشن مسرت زیدی کو کہا گیا کہ فوری طور پر مولانا مفتی محمود کو ٹیلیفون لگا کر دیں۔ رکن قومی اسمبلی افضل چیمہ کو لاہور ہائیکورٹ کا جج بنانے کا وعدہ کیا گیا اور پھر وہ نہ صرف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بنے بلکہ بعد ازاں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی تعینات کیے گئے۔ راولپنڈی سے ٹرانسپورٹر علی اصغر شاہ جن کا راولپنڈی ہزارہ ٹرانسپورٹ کے نام سے کاروبار تھا انہیں دھمکی دی گئی کہ ووٹ نہ دیا تو روٹ پرمٹ منسوخ کردیئے جائیں گے۔ یوں آئینی ترمیم کیلئے ووٹ پورے ہو گئے۔

صدارتی الیکشن کے دن قریب آ رہے تھے اور اپوزیشن جماعتیں جنرل ایوب خان کیلئے میدان کھلا نہیں چھوڑنا چاہ رہی تھیں اس لیے خواجہ ناظم الدین کی مسلم لیگ کونسل، شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی ولی خان، نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ، سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کی نظام اسلام پارٹی اور مولانا مودودی کی جماعت اسلامی نے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنایا۔ ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کے طور پر خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی اور جنرل اعظم خان کے نام زیر غور آئے مگر کسی پر اتفاق نہ ہو سکا۔ ایوب خان اپنی خود نوشت ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں کہتے ہیں کہ COPکا مطلب ہے Cult of power یعنی مسلک اقتدار۔کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نے فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کر کے ایوب خان کو ششدر کر دیا۔ 17ستمبر 1964ء کو فاطمہ جناح نے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے پر آمادگی ظاہر کی اور 18ستمبر کو راولپنڈی کے جلسہ عام سے انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا۔ سپریم کورٹ کے وکیل سید سمیع احمد جو عوامی لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رُکن ہونے کے ناطے اس انتخابی مہم کا حصہ تھے، وہ اپنی کتاب ’’History of Pakistan and role of army‘‘میں لکھتے ہیں کہ جب فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف انتخاب لڑنے کیلئے اپنی نامزدگی قبول کی اور سیاسی میدان میں اُتریں تو ایوب خان کے کیمپ میں افراتفری پھیل گئی۔ دونوں صوبوں کے گورنروں یعنی عبدالمنعم خان اور نواب آف کالا باغ جو اپنے اپنے صوبے پر آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کر رہے تھے، ہکا بکا رہ گئے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں اور اس صورتحال کا مقابلہ کیسے کریں؟ایوب راج نے فاطمہ جناح کا راستہ روکنے کیلئے ڈھٹائی اور بے شرمی کی سب حدیں عبور کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مولانا بھاشانی کی وفاداریاں خرید لی گئیں مگر شیخ مجیب الرحمان ڈٹ کر فاطمہ جناح کیساتھ کھڑے رہے اور مشرقی پاکستان میں مادر ملت کو خوب پذیرائی ملی۔ ایوب خان کو اور کچھ نہ سوجھی تو فاطمہ جناح کے خلاف مذہب کارڈ استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا اور سرکاری سطح پر یہ پراپیگنڈا کیا جانے لگا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں۔ ایوب خان نے ایڈوائزری کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی یعنی اسلامی نظریاتی کونسل بنی، فاطمہ جناح کے خلاف اس ادارے کو استعمال کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔

مشتاق احمد اپنی تصنیف Government, and Politics in Pakistan میں بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ جناح کو ریاست کا سربراہ بننے سے روکنے کیلئے فتویٰ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لاہور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رُکن مولانا عبدالحمید بدایونی کی موجودگی میں 650علما نے فتویٰ دیا کہ سربراہ ریاست کا منصب کسی خاتون کے حوالے کرنا، غیر اسلامی اور حرام ہی نہیں بلکہ ملک اور قوم کیلئے تباہ کن ہوگا۔

گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم خان نے بھی اس سرکاری پراپیگنڈے کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے بیانات میں علماء و مشائخ سے اپیل کی کہ وہ عوام کو صحیح صورتحال سے باخبر کریں اور انہیں بتائیں کہ اسلام عورت کی حکمرانی اور ریاست کا سربراہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس سرکاری پراپیگنڈے کا توڑ کرتے ہوئے فتویٰ دیا کہ خاتون سربراہ ریاست بن سکتی ہے اور اسلام میں اس حوالے سے کوئی قدغن موجود نہیں۔ اس جوابی فتوے پر درباری ملا سرگرم ہوگئے اور مولانا مودودی کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کیا جانے لگا۔

ہربرٹ فیلڈمین اپنی کتاب From Crises to Crises Pakistan1962-1969 میں انکشاف کرتے ہیں کہ فاطمہ جناح کے خلاف پراپیگنڈے کیلئے پیر صاحب دیول شریف کی قیادت میں ’’جمعیت المشائخ ‘‘ تشکیل دی گئی جس نے نہ صرف یہ فتویٰ دیا کہ عورت اسلامی ریاست کی سربراہ نہیں بن سکتی بلکہ پیر آف دیول شریف نے کہا کہ روحانی طور پر انہیں کشف ہوا ہے اور قادر مطلق نے ایوب خان کیلئے پسندیدگی جبکہ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کیلئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ فاطمہ جناح کا چراغ بھلے گل کردیا گیا مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔

تازہ ترین