اس وقت امریکا میں 86 سال کی سزا کاٹنے والی پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی حکومت، فیڈرل بیورو آف پریزنس اور متعدد جیل حکام کے خلاف وفاقی عدالت میں جامع مقدمہ دائر کیا ہے۔
61 صفحات پر مشتمل مقدمہ تقریباً 2 ماہ قبل امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ برائے شمالی ٹیکساس میں دائر کیا گیا ہے، جس کی کاپی ’جیو نیوز‘ نے حاصل کر لی ہے۔
مقدمے کی کاپی کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے جیل کے عملے پر آئینی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں، جن میں جنسی زیادتی، تشدد، طبی سہولتوں کی عدم فراہمی اور مذہبی امتیاز شامل ہیں۔
یہ مقدمہ عافیہ صدیقی کے وکلاء نعیم ہارون سُکھیا، ماریا کری اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے دائر کیا ہے، جس میں عافیہ صدیقی کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی تفصیل شامل ہے۔
شکایت کے مطابق 2010ء میں ایف ایم سی کارسویل میں قید کے آغاز سے ہی صدیقی کو جیل کے عملے اور دیگر قیدیوں کی طرف سے بار بار جنسی حملوں اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعات الگ تھلگ نہیں تھے بلکہ جیل میں جاری ایک منظم بدسلوکی کا حصہ تھے۔
عافیہ صدیقی کا دعویٰ ہے کہ مرد محافظ جن میں سے بعض کے نام شکایت میں شامل ہیں، انہیں معمول کی تلاشی کے بہانے ہراساں کرتے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے تھے۔
شکایت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ زیادتی کی اطلاع دینے پر ایک واقعے میں جیل کے عملے نے مبینہ طور پر ان پر تیزابی محلول کا چھڑکاؤ کیا تھا۔
مقدمے کا ایک اہم حصہ عافیہ صدیقی کو اپنی مذہب کی آزادی سے محروم کرنے پر مبنی ہے۔
عافیہ صدیقی نے کئی بار امام سے روحانی رہنمائی کے لیے رسائی کی درخواست کی، ان کے قانونی ٹیم کی کوششوں کے باوجود جنہوں نے مقامی امام عمر سلیمان اور عاصف ہیرانی کے ساتھ ملاقاتوں کا انتظام کرنے کی کوشش کی، ایف ایم سی کارسویل کے عملے نے ان درخواستوں کو مستقل طور پر نظر انداز یا تاخیر کا شکار بنایا۔
شکایت میں کئی ایسے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں عافیہ کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، جیسے کہ مرد اہلکاروں کا ان کے نجی لمحات میں دیکھنا، ان کو کپڑے اتارنے پر مجبور کرنا اور مذہبی اشیاء ضبط کرنا۔
عافیہ صدیقی کو گزشتہ ایک دہائی سے جمعے کی نماز ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔
شکایت میں عافیہ صدیقی کو فراہم کی جانے والی ناکافی طبی دیکھ بھال کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، حالانکہ ان کے دستاویزی PTSD اور جسمانی بیماریوں کے مسائل موجود ہیں، جو امریکی حراست میں مبینہ تشدد کے دوران پیدا ہوئے تھے۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ جیل میں ان کی شدید صدماتی حالت اور جسمانی زخموں کو نظر انداز کرنا، بشمول سماعت کی کمی اور دانتوں کے مسائل آٹھویں ترمیم کی خلاف ورزی ہیں۔
اس مقدمے میں عافیہ صدیقی کے الزامات سے ایف ایم سی کارسویل میں وسیع پیمانے پر بد انتظامی دیکھنے میں آتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور پچھلے مقدمات کی رپورٹس میں جیل کے عملے کی جانب سے خواتین قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات کا انکشاف ہوا ہے۔
2022ء میں فورٹ ورتھ اسٹار ٹیلیگرام کی تحقیقات نے جیل کے عملے کی جنسی بدسلوکی کے متعدد واقعات کو بے نقاب کیا، جن میں سے بہت سے واقعات کو چھپایا گیا یا مناسب طریقے سے حل نہیں کیا گیا۔
عافیہ صدیقی کی قانونی ٹیم جیوری ٹرائل کا مطالبہ کر رہی ہے اور ان کے لیے فوری تحفظ، مذہبی رہنمائی تک بہتر رسائی اور آزاد طبی دیکھ بھال کے لیے اقدامات چاہتی ہے، یہ مقدمہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
پاکستانی حکومت بار بار عافیہ صدیقی کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے، انسانی حقوق کے کارکنان اس مقدمے کو امریکی حکام کو جوابدہ ٹھہرانے کی سمت ایک اہم قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
وکلاء نعیم ہارون سکھیا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے برسوں تک ناقابلِ تصور مصیبتیں جھیلیں اور ان کی حالت ہمارے قیدی نظام میں موجود نظامی مسائل کی یاد دہانی ہے۔
ماریا کری کے مطابق یہ مقدمہ ناصرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی بلکہ ان تمام خواتین کے لیے انصاف کے حصول کا مقصد رکھتا ہے جنہوں نے خاموشی سے ظلم برداشت کیا۔
کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے اس مقدمے کے بین الاقوامی اثرات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ امریکا انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی وابستگی کو برقرار رکھے، خاص طور پر جب دنیا اسے دیکھ رہی ہو۔
امریکی فیڈرل بیورو آف پریزنس نے زیرِ التواء مقدمے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔