• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’سلطان‘‘ انتہائی غریب تھا۔ اس نے زندگی کی سختیاں جھیلیں۔ خاندان میں بڑا ہونے کی وجہ سے غم اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ بعض اوقات حالات اتنے خراب ہوجاتے کہ اس کمزور جان کے اعصاب پہ بھاری پڑ جاتے۔ آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں۔ لوگ پہچان جاتے، لیکن یہ انہیں پی جاتا اور آنکھوں کے کٹوروں سے باہر نہ آنے دیتا۔ کتنی دفعہ فیس ادا کرنے کو بھی پیسے نہ ہوتے، لیکن آخرکار یہ کامیاب ہوگیا۔ حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کیا۔وقت کا پہیہ چلتا رہا اور یہ مسکراتا ہوا آگے ہی آگے گامزن رہا۔ وسائل کی کمیابی، غربت،کم عمری اس کا راستہ نہ روک سکیں۔ آخرکار و ہ کامیاب ہوگیا۔ وہ چاہتا تو آسانی سے دنیا کا شکوہ کرتا، لیکن اس نے اپنی انہی محرومیوں کو طاقت میں بدل دیا۔ یہ الہامی بے اطمینانی کی قوت ہے۔ جب آپ اپنے ردِعمل کو مثبت چارج دے کے دنیا پہ چھا جانے کا عزم کرلیتے ہیںتو معجزات برپا ہونے لگتے ہیں۔ غریبوں میں جستجو زیادہ پائی جاتی ہے۔ ’’والٹیئر‘‘ نے کہا تھا: ’’میں نے ہمیشہ عظیم لوگوں کو جھونپڑوں سے نکلتے دیکھا ہے۔‘‘ ’’اسکاٹش اینلائٹمنٹفلسفےــ‘‘کے مطابق دنیا میں کامیابی کے لئے سرمایہ ضروری ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال ؒنے ’’اسکاٹش اینلائٹمنٹ فلسفے‘‘ کا رَد کر تے ہوئے کہاتھا کہ… دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لئے تنگ…!! کامیابی کا تصور نظام معیشت سے وابستہ نہیں، بلکہ محنت، مشقت، عزم، حوصلے، سادگی اور خلوص کے پیکر بغیر سرمائے کے بھی دنیا میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر سیاست کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے جنوبی افریقہ کے پسماندہ گائوں ’’قونو‘‘ کے ایک چرواہے کو آزادی کا ہیرو نیلسن منڈیلا بنادیا۔ ریڑھی پر پھل رکھ کر بیچنے والے سوکھے سڑے انسان کو ملائیشیا کا وزیراعظم ’’مہاتر محمد‘‘ بنادیا۔ اگر سماج کی دنیا کی بات کی جائے تو مشرق و مغرب کے وہ تمام بڑے لوگ جنھوں نے قوموں، اُمتوں اور تہذیبوں کی سمتِ سفر تبدیل کی، معاشرتی انقلاب برپا کیے یعنی افلاطون، ارسطو، سقراط اور بقراط سے لے کر سارتر سپنسر نطشے ،فرائیڈ ہیگل اور روسو تک، ان سب کا راستہ امیری نہیں فقیری تھا۔
معیشت کی دنیا کی بات کی جائے تو بنگلہ دیش میں غریبوں کے لئے 30ڈالر سے قائم ہونے والے ڈاکٹر یونس کے بینک نے دنیا کو نیا معاشی فارمولہ دیا ہے۔ اس بینک کی 1041 شاخیں ہیں، لیکن اس کے بورڈ آف گورنرز میں آج بھی 13میں سے 9 ممبران عام اَن پڑھ دیہاتی جفاکش مزدور ہیں۔ اسی طرح ریڑھی پر برگر سے کام شروع کرنے والے ’’ہارلینڈ سینڈر‘‘ پوری دنیا میں معروف فوڈ چین کے ارب کھر ب پتی بن گئے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ’’ولیم کولگیٹ‘‘ ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس نے 1806ء میں اپنے ہی نام پر ایک کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ آج یہ کمپنی ’’اس کے کے نام سے دنیا میں جانی جاتی ہے۔ اس کے بے شمار ذیلی ادارے دو سو ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔’’ہنری فورڈ‘‘ بھی ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔ یہ اپنی محنت کے بل بوتے پر پہلے صنعت کار اورآخر میں فورڈ موٹر کمپنی کا بانی بنا۔جو امریکہ کی دوسری بڑی آٹو میکر کمپنی اور دنیا کی پانچویں بڑی کمپنی ہے۔اور امریکی کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں سے آٹھویں نمبر پر ہے۔ ’’تھامس ایڈیسن‘‘ کے والدین انتہائی غریب تھے۔ انہوں نے اپنی غربت کو ترقی میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔ ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے سے کام کا آغاز کیا۔ بعدازاں اس نے آٹومیٹک ٹیلگراف کے لئے ٹرانسمیٹر ریسور ایجاد کیا۔ اس کی ایجادات میں بجلی کا قمقمہ ، میگا فون، سینما مشین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ چاپان سے تعلق رکھنے والا ’’سوئچرو ہنڈا‘‘ ایک غریب لوہار کا بیٹا تھا۔ انتھک محنت کر کے انجینئر اور صنعت کار بنا۔ اس نے 1948ء میں اپنے خاندان کے نام پر اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک لکڑی کی بنی بائیسکل موٹر سے بڑھتی، پھلتی پھولتی ایک کثیر القومی ملٹی نیشنل کمپنی آٹو موبائل اور موٹر سائیکل مینو فیکچرر بن گئی۔ چین سے تعلق رکھنے والا ’’لی کاشنگ‘‘ ایک اسکول کے غریب استاد کا بیٹا تھا، 12 سال کی عمر میں یتیم ہوگیا ۔ یہ صرف محنت کر کے ایشیا کا امیر ترین شخص بنا۔
اگر ثقافت اور فنونِ لطیفہ کی بات کی جائے تو کمزور آواز، بھدی حرکات و سکنات اور سانس پھولنے کی وجہ سے ناکام ہونے والا شخص جب مسلسل مشق اور محنت کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو دنیا اُسے یونان کی آواز کو فلپ کی تلوار سے بچانے والا عظیم خطیب ڈیموستھین قرار دیتی ہے۔ اگر دنیا مردانِ جفاکش کے لئے تنگ ہے توپھر یہ دنیا نیلسن منڈیلا کی باتوں کو ہوا میں اُڑا کیوں نہیں دیتی؟ ڈاکٹر یونس کے بینک کو جلا کیوں نہیں دیتی اور فلاسفہ یونان کے افکار کو بھلا کیوں نہیں دیتی؟ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں بابر جب فرغانہ سے چلا تو سانڈ کی ننگی پیٹھ پر سوار تھا، بے سرو سامانی ہی اُس کا سروسامان تھی، لیکن جفاکشی نے اُسے غلام نہیں، سلطان بنادیا۔ جب تیموری خون سے جفاکشی نکل گئی تو بہادر شاہ ظفر کی یادگار اور لال قلعے کا ہونے والا مالک شہزادہ سہراب شاہ گانے مجرے کے چکر میں دہلی کا باورچی بن کر رہا۔ اس کی ساری عمر ہنڈیا ڈوئی کرتے گزری۔ اگر بادشاہ کا بیٹا بادشاہ اور غریب کا بیٹا غریب ہی پیدا ہوتا ہے تو دنیا نے عروج اس غریب بابر کو کیوں بخشا؟ شہزادہ سہراب شاہ کو کیوں نہیں دیا؟ ڈاکٹر جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب ’’لیسنز فرام اینوائر مینٹل کولیپسز آف پاسٹ سوسائٹیز‘‘ کا مطالعہ کرلیں تو معلوم ہوتا ہے تہذیبیں بستر کے محافظوں اور ڈرائنگ روم کے دربانوں سے نہیں جفاکشی کی داستانوں سے باقی رہتی ہیں۔ اگر کار تھیج کے ہنیبال، مقدونیہ کے سکندر، روم کے سیزر، ایران کے دارا، یورپ کے نپولین، ہندوستان کے راجہ اَشوکا اور منگولیا کے تاتاریوں کی مائوں نے انہیں پیمپرز باندھ کر اونگھنا سکھایا ہوتا تو کیا وہ گھوڑے کی ننگی گھردری پشت پر بیٹھ کر دنیا فتح کرنے کے لئے نکل سکتے تھے؟ نہیںہرگز نہیں، تو معلوم ہوا دنیا مردانِ جفاکش کے لئے تنگ نہیں ہے۔ غریب بھی کامیابی اور ترقی کرسکتے ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو ہمہ وقت روتے رہتے ہیں۔ آخرکار یہی رونا ان کا مقدر بنادیا جاتا ہے۔ کبھی ناکامیوں پہ، کبھی زمانے پہ، کبھی حسرتوںپہ، کبھی وسائل کی کمیابی پہ بین کرتے رہتے ہیںاور گھڑی آگے چلتی رہتی ہے۔
اس دنیا میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ناموافق حالات کا استقبال کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ’’مسٹر آئن نیش‘‘ جاپان گئے تو انہوں نے جاپانی قوم کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ جس کے بعد ان کا کہنا تھا: جاپانی قوم کو سب سے زیادہ متاثر سیاست نے نہیں بلکہ کانٹو کے عظیم زلزلے نے کیا جس میں مشرقی جاپان تہس نہس ہوکر رہ گیا تھا۔ دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی کا ملبے کا ڈھیر بن جانا تھا۔ زلزلے سے اگر تعمیری ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔ جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی بربادی کا واقعہ پیش آئے تو وہ اس کو دو امکانات کے درمیان کھڑا کردیتا ہے۔ وہ یا تو اس سے سبق لے کہ ازسرِ نو متحرک ہو کر اپنی نئی تعمیر کرتا ہے یا مایوسی اور شکایت کی غذا لے کے سرد آہیں بھرتا ہے۔ کشتی رانی کے مقابلوں میں ’’امریکہ کپ‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسے ’’امریکہ کپ‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ 138 سال تک یہ کپ امریکہ جیتتا رہا۔ 1983ء میں پہلی دفعہ آسٹریلوی ٹیم نے اسے جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔ اس سال امریکی ٹیم کی قیادت ڈینس کورنر کررہا تھا، لیکن اس نے اس واقعے سے ہمت نہ ہاری۔ وہ 3 سال ہارتا رہا، مگر چوتھے سال یہ اعزاز دوبارہ جیتنے میںکامیاب ہو گیا۔ اس کی اس جیت کا ایک اہم عامل الہامی بے اطمینانی تھی، یعنی یہ احساس کہ تاریخ میں یہ کپ پہلی دفعہ مجھ سے چھینا گیا ہے۔ ’’ییل‘‘ دوسری جنگِ عظیم میں فرانس کے علاقے میں جرمنی کے ہوائی جہازوں کا مقابلہ کررہا تھا۔ وہ اکیلا تھا، لیکن کسی طرح لڑکھڑاتا ہوا اپنے جہاز کو بچا کر اسپین کے علاقے میں لے آیا جہاں وہ محفوظ تھا۔ جنگ کے اختتا م پر فضائیہ نے اس کو رخصت پر بھیجنے کا ارادہ کیا۔ اسے یقین تھا اگر میں اب واپس چلا گیا تو شاید دوبارہ فضائیہ کو میری ضرورت نہ رہے۔ بعد ازاں یہ پہلا شخص بناجسے آواز سے زیادہ تیز طیارہ اڑانے کا اعزاز حاصل ہوا … تو معلوم ہوا اسکاٹش اینلائٹمنٹ فلسفہ غلط ہے۔ دنیا میں کامیابی کے لئے سرمایہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ دنیا مردانِ جفاکش کے لئے تنگ نہیں ہے۔
تازہ ترین