میں ایک دوست کی لکھی ہوئی مختصر سی سچی کہانی پڑھ رہا تھا ۔ ’’شہناز اپنے چھوٹے سے ایک کمرے کے گھر کے مٹی کے پھٹے ہوئے فرش پر بیٹھی تیل کے لیمپ کے ٹمٹماتے شعلے کو گھور رہی تھی۔ یہ پانچ افراد کی رہائش کے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ وہ سوکھی گھاس، زمین کی مہک اور گندم کے کھیتوں میں ہوا کی خاموش سرسراہٹ کو محسوس کر رہی تھی۔ اس کے شوہر اقبال کو اپنے والد سے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا وراثت میں ملا تھا، جس کی پیداوار اب انہیں زندہ رکھنے کے لئے ناکافی ہو گئی تھی۔ اب اقبال دیر سے گھر آتا تھا، چہرہ غمگین ہوتا تھا، کندھے جھک گئے تھے۔ اتنی محنت کے باوجود ان کےپاس کھانے کےلئے صرف ایک ہفتےکا اناج رہ گیا تھا۔ شہناز نے آہ بھری، اپنے تینوں بچوں کی طرف دیکھا اور پھر لیمپ کے شعلے کو دیکھ کر بولی۔ ’’اب ہم کیا کریں‘‘؟
اقبال نے یہ جملہ سنا مگر اس کی نظریں مسلسل فرش پر جمی رہیں، کافی دیر کے بعد بولا۔ ’’میں مزدوری کرنے شہر جاؤں گا‘‘۔ اقبال شہر گیا تقریباً ایک ہفتے بعد واپس آیا تو اس کی حالت پہلےسے ابتر تھی، کپڑے گندے تھے، گال پر ہلکا سازخم تھا، بہت تھوڑے سے پیسے شہناز کو دیتے ہوئے بولا۔ ’’شہر کی حالت گائوں سے بھی ابتر ہے‘‘۔
اسی وقت میرا دوست مجھ سے ملنے آیا۔ وہ برطانیہ میں طویل عرصہ قیام کے بعد دو ہزار اٹھارہ میں واپس وطن لوٹ آیا تھا۔ اس نے آتے ہی کہا کہ یار ایک سوال کا جواب دو۔ ’’جب میں واپس آیا تھا تو میرےپاس ایک معقول ماہانہ آمدنی کا بندوبست تھا۔ مجھے گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہوئے کبھی احساس نہیں ہوا تھا کہ کتنے پیسے خرچ ہو گئے ہیں۔ میں نے ذرائع خورو نوش خریدتے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ چیزیں کتنے کی آ رہی ہیں۔ مٹن کتنے روپے کا کلو مل رہا ہے۔ کرایہ ادا کرتے ہوئے کبھی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ بجلی کا بل دیتے ہوئے کبھی ماتھے پر بل نہیں آیا تھا۔ میرے ذرائع آمدنی اب بھی اتنے ہی ہیں مگر اب میں لاہور سے اسلام آباد جانے کے بارے میں سوچوں تو دماغ فوراً کہتا ہے اتنے پیسے پٹرول پر لگ جائیں گے۔ کھانے کیلئے مٹن خریدنے کی بجائے چکن خرید لیتا ہوں کہ مٹن بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ مکان کا کرایہ ادا کرتے ہوئے بھی تھوڑی سی مشکل ہوتی ہے۔ بجلی کا بل دیکھ کر ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔ اب میر تقی میر کی میری فکرِ پریشان بھی رات بھر بھٹکتی رہتی ہے۔
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری
تم یہ بتائو کہ اب میں متوسط طبقے کا آدمی ہوںیا میرا شمارغریب طبقے میں ہونے لگا ہے۔ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ملک کے حالات تھوڑے دنوں میں بہتر ہو جائیں گے تو میرا دوست پھر خود کو امیر آدمی شمار کرنے لگے گا‘‘۔ پھر خیال آیا کہ صرف یہی نہیں اس جیسے تو لاکھوں کروڑوں لوگ ہونگے۔ اب مجھے اس سوال کا جواب مل گیا تھا کہ پوری قوم بانی پی ٹی آئی کے عشق میں کیوں گرفتار ہے۔ دراصل پچھلے دو سال میں مہنگائی کا جن اپنی بوتل توڑ کر باہر آ گیا ہے۔ پھر اپنی معاشی صورتحال کے متعلق حقیقی اعداد و شمار تلاش کیے۔ ورلڈ بینک نے 2021ءمیں، غربت کی شرح آبادی کا تقریباً 24-25فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ 2023ءتک، یہ اعداد و شمار بڑھ کر تقریباً 37فیصدتک پہنچ چکے تھے، پاکستان میں افراط زر کی شرح تقریباً 8.9 فیصد ہوتی تھی۔ 2022 تک، اس میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا، جو تقریباً 23 فیصد تک پہنچ گیا۔ 2023ءکے آخر تک یہ اضافہ اوسطاً 25-28فیصد تک پہنچ گیا اور ابھی تک اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مجموعی مہنگائی میں سب سے اہم کردار خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ مثال کے طور پر، گندم، چینی اور دالوں جیسی اہم اشیا کی قیمتوں میں اضافہ بہت سے علاقوں میں 30فیصد سے زیادہ ہ دیکھا گیا جس کی وجہ ناقص کٹائی، سپلائی چین کے مسائل اور مارکیٹ کابیرونی دباؤ ہے۔
حکومت نے افراط زر کو روکنے کی کوششوں میں مانیٹری پالیسی کی شرحوں کو اکثر ایڈجسٹ کیا ہے، معیشت کو متوازن کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2021ءکے اوائل میں اپنے پالیسی ریٹ کو تقریباً 7فیصد سے بڑھا کر 2023ءتک 15فیصد سے زیادہ کر دیا۔ عالمی بینک اور پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان میں غربت کئی دہائیوں سے نیچے کی طرف جا رہی تھی تھی مگر حالیہ بحرانوں نے اس پیش رفت کو تیزی سے بڑھا دیا ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتے ہوئے قرضوں سے نبرد آزما معیشت نے آبادی کی قوتِ خرید کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ بے روزگاری، عدم مساوات، صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں میں کم سرمایہ کاری نے غربت کی اس سطح کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان عوامل کے پیچھے سب سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کار فرما ہے جو ختم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ لہو لہو ہو رہا ہے۔ زمین کی رگوں میں جمتی ہوئی افسردگی کی آخری حد اور مسلسل سلگتے ہوئے اندھیرے آنکھوں میں چبھ رہے ہیں۔ قوم سے اجتماعی دعائے خیر کی التجا ہے۔