رمضان کا مہینہ تھا۔ ایک سائنسی گروپ میں کسی نے پوسٹ کی: کیا یہ ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی بچوں کی شکل مختلف ہوتی چلی جائے۔ چند ہزار سال بعد ان تبدیل شدہ بچوں کو ہمارے جیسے انسان ایسے ہی نظر آئیں، جیسا کہ ہمیں چمپنزی یا گوریلا نظر آتے ہیں۔ اس پر ایک صاحب نے کمنٹ کیا: لگتا ہے آج افطاری میں بھنگ پی تھی۔ محترمہ نے جواب دیا: جی آپ کے گھر سے جو افطاری آئی تھی، اسی میں سے پی تھی۔سب بہت محظوظ ہوئے۔
آپ مگر غور کریں۔ چمپنزی، گوریلا اور دوسرے گریٹ ایپس ہمیں بدصورت نظر آتے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے میں انہیں مگر ویسی ہی دلچسپی ہوتی ہے، جس طرح انسانوں کو ایک دوسرے میں۔
برصغیر میں تو خیر ارتقا کے تصور ہی کو انتہائی ناقابلِ قبول قرار دے دیا گیا۔ جس کسی نے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا، اسے یہ کہہ دیا گیا کہ تمہارے آباؤ اجداد یقیناً بندر ہوں گے، ہمارے انسان تھے۔ بندر کا دماغ چونکہ میملز سے بڑا ہوتاہے، اس لیے وہ پیٹ بھرا ہو تو کتے بلیوں کو وہ خاصا تنگ کرتا ہے۔ارتقا کاعلم تویہ بتا رہا تھا کہ انسان اور چمپنزی کے آباؤ اجداد مشترک تھے۔جس طرح بیس مختلف شکلوں والے بچوں کا دادا ایک ہی ہوتا ہے۔
یہ کوئی ہوائی بات نہیں تھی۔ جس طرح ہمارے ایک نوجوان ”مفکر“ نے پچھلے دنوں یہ شرلی چھوڑی کہ وہ کیپلر سے کئی گنا زیادہ طاقتور دوربین بنا رہا ہے۔ آج بھی اگر دنیا کی کسی بھی لیبارٹری میں انسان اور چمپنزی اور گریٹ ایپ بونوبو کے جینز کا مشاہدہ کیا جائے توتینوں 99فیصد تک ایک ہیں۔ اس پر مستزاد کئی چیزیں اور ہیں۔ فاسلز کا علم بتاتا ہے کہ اس دنیا میں زندگی سب سے پہلے پانی میں پیدا ہوئی۔ پچاس پچپن کروڑ سال پہلے پانی میں مچھلی اور دوسری پیچیدہ مخلوق نے جنم لیا۔ اس کو ریپٹائل تک کا ارتقا کرنے میں بیس کروڑ سال لگے۔ تیس کروڑ سال پہلے ریپٹائلز وجود میں آئے۔ طویل عرصہ پھر ریپٹائلز نے زمین پہ راج کیا۔بیس کروڑ سال پہلے میملز آئے، بچوں کو دودھ پلانے والے۔ ہمارے اندر ان کے بھی جینز موجود ہیں کہ انسانوں میں بھی مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ڈائنا سار ز کا خاتمہ ہوا۔ساڑھے پانچ کروڑ سال پہلے پرائمیٹس وجود میں آئے۔گریٹ ایپس کو اڑھائی کروڑ سال ہوئے ہیں لیکن انسان کے آباؤ اجداد سب سے پہلے پچیس سے تیس لاکھ سال پہلے منظرِعام پر آئے۔اب یہاں تک تو ارتقا پہ جھگڑنے والوں کو یہ اعتراض تھا کہ انسان کو گریٹ ایپس میں سے ایک کہہ دیا۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کی طرح دو ٹانگوں والے بھی کئی ہیں۔ نینڈرتھلز تو ابھی تیئس ہزار سال پہلے تک زندہ تھے۔ان کے فاسلز پوری صحت کے ساتھ موجود ہیں اور ڈی این اے شائع ہو چکا۔ ایک سائنسدان اگر یہ کہتاہے کہ انسانوں اور چمپنزیوں کا ڈی این اے ننانوے فیصد تک مشترک ہے تو وہ ہوائی بات نہیں کر رہا بلکہ مکمل طور پرثابت شدہ سائنسی بات۔
لیبارٹریز اور سائنسدان ہر ملک میں موجود ہیں۔ ان میں ملحد بھی ہیں، عیسائی، یہودی اور مسلمان بھی۔ ان میں چین، امریکہ، روس اوریورپ کی طرح متحارب ممالک کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ سائنسدان مگر وہی بات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جسے وہ لیبارٹری میں دیکھ چکے ہوں اور باقیوں کو لیبارٹری میں دکھا سکیں۔
اب جو لوگ مذہبی تھے، انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ زمین پر انسان جیسا اور آج کوئی ہے اور نہ پہلے کبھی تھا۔ عقل اور علم کے حساب سے وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ شعر کسی نے نہیں کہا اور ٹریفک سگنل کسی نے نصب نہیں کیا۔یہ بات البتہ درست ہے کہ حیاتیاتی طور پر یا بیالوجی کے حساب سے انسان بھی وہی ہے جو نینڈرتھل یا چمپنزی ہے اور معاف کیجیے بکراہے۔دل اُسی طرح دھڑکتا ہے، جگر، پھیپھڑے اور خون، سب کچھ وہی ہے۔
ادھر دوسری طرف جو لوگ ملحد ہیں، وہ ان سارے حقائق کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان اس زمین پہ اپنے آپ تخلیق ہوا ہے۔ کون سا خدا، کیسا خدا؟ حالانکہ اپنے آپ اگر ایک اسپیشیز اتنی ترقی کر سکتی ہے تو کوئی اور بھی کرتی۔ کوئی ایک اسپیشیز کچھ نہ کچھ تو کرتی۔ نیچرل سلیکشن اور سرواوئیول آف دی فٹسٹ کے اصول کیا کہتے ہیں۔ بہت خوفناک دباؤ انسان نے بہت سی اسپیشیز پر ڈالا۔ ان میں سے کئی کو تو ناپید ہی کر دیا۔یہ بات بالکل درست ہے کہ انسانی دماغ کی جو کلاس ہے، اس کے قریب بھی کوئی نہ پھٹک سکا۔ یہ بات درست ہے کہ زمین پہ پہلے خلیے کی پیدائش سے لے کر ہومو سیپینز تک، اربوں سال پہ محیط ارتقا کا ایک سفر ہے لیکن پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں، یہ بات حلق سے نہیں اترتی۔منصوبہ ساز وہی ہے، جس نے پہلا خلیہ تخلیق کیا اور اس پر اپنی نسل بڑھانے کے احکامات اتارے۔انسان کا چونکہ حساب ہونا تھا چنانچہ اسے سب سے منفرد بنایا اور اس پر شریعت نازل کی۔اورموت کے بعداسے دوبارہ تخلیق کیا جائے گا۔