(شبینہ گل انصاری)
کیا بتاؤں جو گزرتی ہے قیامت مُجھ پر
آنسوؤں کی مِرے واجب ہوئی قیمت مُجھ پر
پہلے دامن سے لہو عدل کا وہ صاف کرے
پھر لگائے کوئی الزام، عدالت مُجھ پر
اپنے احساس کو لفظوں کا اگر رُوپ مَیں دُوں
میرے آنچل کی طرح چھائے یہ شُہرت مُجھ پر
تشنہ لب مَیں تو گزر آئی فراتِ جاں سے
اب کسی طور بھی واجب نہیں بیعت مُجھ پر
اپنے یوسف کے مَیں دامن کی محافظ خود ہوں
رشک کرتی ہے مِرے عہد کی عورت مُجھ پر
وقت کی دھوپ میں سایہ ہے، مِری ماں کی دعا
تاقیامت رہے یہ چادرِ شفقت مجھ پر
ہوئی درپیش ضرورت جو شبینہ گُل کو
کھل گئی اس کے حوالوں کی حقیقت مُجھ پر
(حامد علی سیّد)
اس کے ہونٹوں پہ ہنسی رہنے دے
ایک محفل تو سجی رہنے دے
مت ہٹا بام سے یادوں کے چراغ
ایک تصویر لگی رہنے دے
خود کو سورج کی تمازت سے نکال
دھوپ میں چھائوں گھنی رہنے دے
اپنا کردار کہانی میں بدل
پیاس اور تشنہ لبی رہنے دے
موسمِ گل میں اسے دیکھ مگر
باقی باتوں کو ابھی رہنے دے
اپنے ماضی کو تومسمار نہ کر
وہ دریچہ، وہ گلی رہنے دے
جس کی مہکار سے حامدؔ ہے بہار
شاخِ گل پر وہ کلی رہنے دے
(سیّد سخاوت علی جوہر)
جب بیاباں میں اٹھاکر آشیاں لے جائیں گے
ساتھ ہی اپنے بہارِ گلستاں لے جائیں گے
شمعِ رویان جہاں دیکھیں گے حسرت سے ہمیں
خاک پروانہ اٹھاکر ہم جہاں لے جائیں گے
آنے والی ہے وہ ساعت، آنے والا ہے وہ دن
نوچ کر دیوانے جس دن کہکشاں لے جائیں گے
جب بھی جائیں گے یہاں سے اپنی منزل کی طرف
ساتھ اپنے ہر غمِ کون و مکاں لے جائیں گے
راس آئی ہے جسے صحرا نوردی عشق میں
آپ کیسے اس کو سوئے گلستان لے جائیں گے
رازِ دل ہونے نہ دیں گے فاش الفت میں کبھی
ہم چھپا کر دل میں غم کی داستان لیجائیں گے
ایک ہنگامہ بپا ہو جائے گا جوہرؔ وہاں
دھجیاں ہم جیب و داماں کی جہاں لے جائیں گے