سائرہ نعیم
اماوس کی رات کے پچھلے پہر، اُس نے جب برگد کے گھنے درخت کے تنے سے لگے، اپنی جِلد پرایک چمک دار کینچلی نمودار ہوتے دیکھی تو خُوشی سے جُھوم اٹھا۔ پرانی، بدرنگ کینچلی اُس نے وہیں اُتار پھینکی اور دادی کو دکھانے کے لیے تیز تیز رِینگنے لگا۔ ’’جب تُو سو برس مکمل کرلے گا، تو بدی اور نیکی کا ایک نیا جنم تیرا منتظر ہوگا معکوس! اور اُس وقت راستی کا رستہ اختیار کرنا بڑا دشوار گزار ہوتا ہے۔‘‘ اُس کو بچپن میں دادی کی کہی بات یاد آئی۔ ’’مَیں اُس وقت آپ کے پاس چلا آؤں گا، اور آپ سے گیان لے لوں گا۔‘‘ وہ شرارت سے ہنستا ہوا کہتا، تو دادی سر ہلادیتی۔
’’ایک سو برس کی عُمر مبارک ہو معکوس!‘‘ دادی اُس کی نئی کھال کی طرف ستائشی نظروں سے دیکھ کر مُسکرائی۔ ’’مجھے آپ کا دیا سارا گیان یاد ہے دادو!‘‘ وہ خوشی سے پَھن پھیلائے، بچّوں کی طرح دادی کا سبق دہرانے لگا۔ ’’فیصلہ کرتے وقت عدل کرنا، انسانوں کی عزت کرنا اور بلاوجہ کسی پر حملہ نہ کرنا۔‘‘ اُس نےسرجُھکا کر دادوکی طرف دیکھا۔ بوڑھی ناگن ہنسی اور اُس کے ماتھے پر اپنا بوسہ ثبت کردیا۔ پھر اُسے دُعاؤں کے حصار میں رخصت کرکے پیڑ کی درمیانی ٹہنی پر پسر گئی۔
معکوس، جنگلوں، دریاؤں، وادیوں کے دل کش نظاروں سے محظوظ ہوتا ایک چھوٹے سے شہرجاپہنچا۔ وہ انسان کا رُوپ دھارے ایک مجمعے میں بیٹھا تھا۔ لوگ سیاست، مذہب اور دیگر امورِ زندگی پر محوِ گفتگو تھے۔ اچانک ایک جانب سے شور اُٹھا اور پھر دیکھتے دیکھتے دونوں طرف جوتم پیزار شروع ہوگئی۔ معکوس اُکتا گیا۔
اُسے شدید پھنکار کی خواہش ہوئی لیکن دادو کا گیان یاد آگیا، تو مُٹھیاں بھینچے کھڑا رہا۔ اچانک ایک شخص نے اُسے ٹہوکا دے کرپوچھا۔ ’’تُو کہاں کا ہے بھئی؟ پہلے تو کبھی نظر نہیں آیا؟‘‘’’مم… مَیں… مَیں اِن کے ساتھ آیا ہوں۔‘‘ اُس نےگھبرا کر ایک صاحب کی طرف اشارہ کر دیا، جو بہت سے اسلحہ برداروں میں گِھرے کھڑے تھے۔
اتنے میں دو آدمیوں نے اُسے بازو سے پکڑ کر ایک جانب بنی جھاڑیوں کی طرف گھسیٹا۔ ایک آدمی نے اُس کی گردن پردباؤ ڈالا۔ اچانک کسی بلا کی مانند نازل ہوئی اس مصیبت نے معکوس کا ذہن دفاعی تدبیر پر لگایا، تووہ گیان سمیت بہت کچھ بھول گیا۔ اُس نے پُھرتی سے اُن کی گرفت سے آزاد ہوکر غصّے میں بَھری ایک پھنکار ماری اور دونوں کو ڈس لیا۔ اور پھر… انسانی روپ دھار کر بَھرے مجمعے میں پہنچ گیا۔