• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالیہ زاہد بھٹی

’’ مُلک میں عورتوں پر مظالم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف سب کو مِل جُل کر کام کرنا چاہیے، کیوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم متّحد ہو کرحکومت پر دباؤ ڈالیں کہ حقوقِ نسواں قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔‘‘مسز شمسی فریش اورنج جوس کا گلاس شیشے کی قیمتی ٹیبل پر رکھ کر اپنے نیچرل شیڈ سے آراستہ گلابی ہونٹوں کے کنارے انتہائی نزاکت سے ٹِشو کے ساتھ تھپتھپاتے ہوئے بڑی دل سوزی سے گویا ہوئیں۔ ’’ہاں بالکل، یہ لاتوں کے بھوت ہیں، باتوں سے نہیں مانیں گے۔ ہمیں ہر صُورت ان مَردوں کی غلامی سے خود کو اور مظلوم عورتوں کو آزاد کروانا ہوگا، یہ مرد آخر سمجھتے کیا ہیں، اپنی بیویوں، بیٹیوں سے کھانا پکوائیں گے، کپڑے دُھلوائیں گے، اس قدر ظلم کریں گے اور ہم خاموش رہیں گی… ہر گز نہیں۔ 

اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا، کوئی اسٹیپ نہیں لیا، تو انٹرنیشنل لیول پر ہمارا امیج مزید خراب ہوجائے گا۔ ویسے ہی وہ ہمیں ڈاؤن مارکیٹ اور لو گریڈ سمجھتے ہیں۔‘‘ بین الاقوامی فرینچائز کے کریمی پیزا کا ایک سلائس اسٹرابیری شیک کے ساتھ حلق سے نیچے اتارتے ہوئےمسز خاور نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا۔ مختلف اخبار ات اور چینلز نمایندگان، ان بیان ریکارڈ کروانے والی خواتین کی باتیں انہماک سے نوٹ کر رہے تھے کہ آنے والے ایک، دو روز کے لیے انہیں خبریں جو مل رہی تھیں۔ دورانِ پریس کانفرنس رپورٹرز کے لیے چائے، فریش جوس، جب کہ اختتام پر ایک پُر تکلّف عصرانے کا بھی انتظام تھا۔ خواتین کے وہی روایتی، گِھسے پِٹے مطالبات، مَرد مخالف نعروں اور باتوں نے جہاں صحافیوں کو خاصا بےزار کیا تھا، وہیں مشہور بیکرز اور ریسٹورنٹس کے لذیذ ،ذائقے دار آئٹمز نے موڈ خوش گوار کر دیا۔

شہر کے پوش علاقے میں قائم ایک بنگلے کے گلاس والز سے مرصّع ہال نما کمرے میں اعلیٰ طبقے کی خواتین کی ’’ویمن ایمپاورمنٹ‘‘ کے حوالے سے میٹنگ اب برخاست ہو چُکی تھی۔ گوکہ سورج سوا نیزے پہ تھا، لیکن کمرے میں رکھے قدِ آدم اے سی کے سبب گرمی کا احساس تک نہیں ہورہا تھا۔ لیکن اسی بنگلے میں گلاس والز سے باہر زندگی قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی، حقوقِ نسواں کی ’’علَم بردار‘‘، مظلوم خواتین کی آواز سمجھی جانے والی مسز خاور کے گھر کام کرنے والی عفّت بھری دوپہر میں صرف اس لیے مالی کے حصّے کا کام کر رہی تھی کہ اپنے 5 سالہ بیٹے کو بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جاسکے۔ 

اس نے گزشتہ روز مسز خاور سے آج کی چُھٹی اور کچھ پیسے ایڈوانس مانگے تھے تاکہ بیٹے کو بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جا سکے، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’آج گھر میں پریس کانفرنس اور بہت کام ہے ‘‘چھٹی دینے سے انکار کردیا تھا اور کہا کہ ’’کل مالی چُھٹی پر ہوگا،مہمان بھی آئیں گے، تو اگر تمہیں اضافی پیسے چاہئیں، تو مالی کے حصّے کا کام کرکے اضافی پیسے لے لو۔ ویسے بھی تمہیں بیٹھے بیٹھے کھانے کی عادت پڑ گئی ہے، وزن دیکھو کتنا بڑھ گیا ہے تمہارا۔ اور گھر میں ویسے ہی اتنے نوکر چاکر ہیں، تمہیں کون سا زیادہ کام کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اگر اضافی پیسے چاہئیں، تو لان کا کام کرنا پڑے گا۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ گھر کا سارا کام نمٹانے کے بعد اب عفّت کڑی دھوپ میں ایک کنال پر پھیلے لان کی صفائی ستھرائی کر رہی تھی اورساتھ سورج کی سخت تپش بھی پامَردی سے جھیل رہی تھی۔

عفّت کا شوہر،گُل خان رکشہ چلاتا تھا، لیکن ایک ٹرالر کی ٹکّر سے حادثے کا شکار ہوکر معذور ہوگیا اور تب سے عفّت نے گھروں میں کام کاج شروع کردیا تھا۔ گزشتہ 15روز سے عفّت کا بیٹا بیمار تھا، سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرز دوا تو دیتے، لیکن کچھ فائدہ نہیں ہو رہا تھا، اسی لیے دونوں میاں بیوی نے بچّے کو بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا سوچا، لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ ڈاکٹر کی فیس ادا کر پاتے، اسی لیے گل خان نے عفّت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی مالکن سے بات کرے۔ 

وہ بہت بھلی خاتون ہیں ، عورتوں اور بچّوں کے حقوق پر بات بھی کرتی ہیں، وہ ضرور اُن کی مجبوری سمجھیں گی اور اس مشکل وقت میں کام آئیں گی۔ لیکن دونوں میاں بیوی یہ نہیں جانتے تھے کہ ایسے لوگوں کا ضمیر صرف کیمرا دیکھ کر ہی جاگتا ہے۔ جب عفّت نے گُل خان کو مالکن کے رویّے اور اووَر ٹائم سے متعلق آگاہ کیا، تو مجبوراً دونوں نے طے کیا کہ گُل خان کسی سے پیسے اُدھار لے کر بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے گااورجب عفّت کام سے فارغ ہوکر پیسے لےکر آئے گی، تو ادھار کی رقم ادا کردیں گے۔

گُل خان جب بڑے ڈاکٹر کے پاس پہنچا، تو وہاں موجود ڈاکٹرنی گُل خان کو دیکھتے ہی پہچان گئی کہ وہ گُل خان ہی کے رکشے میں میڈیکل کالج جاتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ گُل خان کتنا محنتی اور خوددار ہے۔ وہ گُل خان کو اس حالت میں دیکھ کر سخت افسردہ ہوئی، پھر اُس کی کہانی سُننے کے بعد کہا ’’گُل چاچا! مَیں نے بچّے کا معائنہ کرلیا ہے، جانے سے پہلے کچھ ٹیسٹس کروالینا اور کل دوبارہ دکھانےآنا۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، اب تمہارابیٹا میری ذمّے داری ہے۔ اور ہاں، یہ مَیں کوئی احسان نہیں کر رہی۔ 

یاد ہے، ایک بار میرے بابا کی نوکری چُھوٹ گئی تھی اور میرے پاس رکشے کا کرایہ دینے کے پیسے نہیں تھے، تم پورا ایک مہینہ بِنا کرایہ لیے مجھے اپنے رکشے میں کالج لاتے، لے جاتےرہےتھے اور بعد میں وہ پیسے لینے سے بھی انکار کردیا تھا۔ تو مَیں تمہارے بچّے کا علاج اُنہی پیسوں سے کر رہی ہوں۔‘‘ ڈاکٹرنی کی باتیں سُن کر گُل خان کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ وہ اسے دُعائیں دے کر خوشی خوشی بیٹے کے ساتھ اپنی بیوی کے پاس بنگلے آگیا۔ گیٹ کے باہر کھڑے چوکیدار سے عفّت کےمتعلق پوچھا۔ چوکیدار عفّت کو بلانے گیا، تو وہ لان کے ایک کونے میں بےہوش پڑی تھی۔ اُس نے اَدھ موئی سی عفّت کے منہ پرپانی ڈالا، تو وہ ہوش میں آئی۔ 

اتنے میں گُل خان بھی اندر آچُکا تھا’’کیا ہوگیا عفّت؟ تم ٹھیک تو ہو، پٹھان توبہت سخت جان ہوتا ہے، تم گرمی سے کیسے بےہوش ہوگئیں؟‘‘ مگر،عفّت کی آنکھوں میں اِک وحشت زدہ خاموشی تھی، اس نے اپنی بند مُٹھی سے سو روپے کا مُڑاتُڑا نوٹ دکھاتے ہوئےگُل خان سے کہا ’’بیگم صیب نے بس یہ پیسےدئیے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ لان کا اووَرٹائم اتنا ہی بنتا ہے۔ اب ہم منّے کو بڑے ڈاکٹر کو کیسے دکھائیں گے، اُدھار کیسے چُکائیں گے…‘‘ اوریہ کہتے ہوئے وہ زاروقطار رونے لگی۔‘‘ ’’اوہو…! تُو پریشان نہ ہو، اللہ کبھی اپنی مخلوق سے منہ نہیں پھیرتا، ہمارے منّے کے علاج کا بندوبست ہوگیا ہے۔ اب بہت بڑی اور اچھی ڈاکٹرنی سے علاج ہوگا ہمارے منّے کا۔‘‘ گُل خان نے اسے پانی پلاتے ہوئے تسلّی دی اور ساری کہانی کہہ سُنائی، تو عفّت کے چہرے پر جیسےزندگی کی رمق آگئی ۔ ’’چل گُل خان! اب مَیں اس گھر میں کام نہیں کروں گی، کوئی ایسا گھر ڈھونڈوں گی، جہاں صرف انسانیت کی باتیں نہ کی جاتی ہوں، بلکہ انسانوں کو انسان سمجھا جاتا ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دونوں میاں بیوی اُس بڑے بنگلے سے باہر آگئے۔