(گزشتہ سے پیوستہ)
ذکر ماڈل ٹائون کا ہو تو میں بہت ’’باتونی‘‘ ہو جاتا ہوں۔ ماڈل ٹائون کا ذکر مجھے ذکر یار لگتا ہے۔ اس لئے بھی کہ اس میں میرے یاروں کا ذکر ہےزندہ دل،ہنسوڑے اور ’’پنگے‘‘لینے والے منیر احمد شاہ کا چھوٹا بھائی ایچی سن کالج میں پڑھتا تھا۔ ہم سب اسے ملنےگئے ۔درمیان میں نماز کا وقت آگیا میرا عارف جانی جسے تبلیغی جماعت میں صوفی عارف کہتے تھے بے حد مذہبی تھا چنانچہ اس نے کہا کہ کالج کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اب امامت کا مسئلہ پیش آیا تو ’’اجماع امت‘‘ یہ تھا کہ امامت کا حق صرف عطاالحق قاسمی کوحاصل ہے، میں نے صوفی عارف کی طرف اشارہ کیا کہ اس کی موجودگی میں امامت کرنا ایک صالح شخص کی موجودگی میں ایک فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی مگر میری کسی نے نہ سنی اور مجھے مصلے پر کھڑا کر دیا گیا، تاہم مجھے موقع مل گیا کہ ایک تو میں زیادہ سے زیادہ ثواب کمائوں اور دوسرے ان دوستوں کو ان کے کئے کی سزا بھی دوں۔ چنانچہ مجھے جتنی لمبی آیات یاد تھیں وہ میں نے سادہ نہیں قرات کے ساتھ پڑھیں اس کے علاوہ رکوع و سجود میں بھی اتنا وقت لیا کہ جس کی مثال نہ ملتی ہو۔صرف یہی نہیں بلکہ میں نے پندرہ بیس منٹ اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا بھی مانگی اس کے بعد جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ایک مقتدی بھی نظر نہ آیا، یہ خبیث ایک کونے میں کھڑے کھڑ کھڑ ہنس رہے تھے اس کے بعد عارف سے امامت کرائی گئی میں نے جو نماز ایک گھنٹے میںپڑھائی تھی وہ اس نے سات منٹ میں پڑھ کر دکھا دی اصل میں عارف اور منیرشاہ اصلی نماز سے بھی محروم نہیں رہنا چاہتے تھے۔
مالک جس کا ذکر کرتا چلا آ رہا ہوں وہ بہت عرصہ گم صم رہنے کے بعد گزشتہ ماہ لاس ویگاس میں انتقال کر گیا ۔ہم سب دوست رات گئے تک ہم میں سے کسی ایک دوست کے گھر بیٹھ کر گپ شپ کیا کرتےتھے اگر اس دوران گہری رات ڈیرہ جمالیتی تو مالک کی ڈیوٹی تھی کہ وہ مجھے میرے گھر کی دیوار پھلانگنے میں مدد کرتا ۔گرمیوں کے دنوں میں اہلخانہ صحن میں سوئے ہوتےتھے ایک دن مالک کو مجھے دیوار پھلانگنے کے دوران جانے کیا ہوا کہ جب میں اپنے صحن میںکودرہا تھا اس نے باآوازِ بلند کہا ڈرنا نہیں اگر کسی کی آنکھ کھل جائے تو گولی مار دینا ایک میرے کودنے کی آواز دوسرے رات کے سناٹے میں مالک کی گونجتی آواز کے نتیجے میں سب اہلخانہ کی آنکھ کھل گئی اس کے بعد میرے ساتھ جو ہوا آپ کو بتانا ضروری نہیں کہ خود آپ میں سے بہت سوں کو ایسی سچویشن پیش آئی ہوگی!
اور ہاں ایک نابینا فقیر عین اس وقت ہمارے پاس آن دھمکتاجب ہم قریبی پارک میں گھاس پر بیٹھے گپ شپ کر رہے ہوتے وہ کچھ مانگنے کی بجائے تلاوت شروع کر دیتا اللّٰہ معاف کرے اس کی آواز طبع نازک پر گراں گزرتی تھی مگر وہ یہ حرکت تب تک کرتا جب تک ہم کافی دیر تک اسے کچھ نہ کچھ دےنہ دیتے چنانچہ اس کی بھیانک آواز سے بچائو کے لئے ہم نے اس سے یہ ڈیل کی ہوئی تھی کہ وہ آکر خاموش کھڑا ہو جائے ہم اسے خوش کرکے بھیجیں گے۔ایک دن ہمیں اس کی آمد کا پتہ نہیں چلا چنانچہ کچھ دیر بعد اس کی آواز آئی ’’کچھ دیتے ہو کہ شروع کروں تلاوت!‘‘آئندہ ہم نے اسے کبھی موقع ہی نہیں دیا کہ وہ ہمیں یہ دھمکی دے سکے ۔ایک قابل ذکر بات اور اکی جسے گزشتہ کالم میں کمپوزر نے اکی کی بجائے مسلسل’’اسی‘‘ لکھا کے تایا علی الصبح فجر کے وقت اپنے گھر کی ممٹی پر بیٹھ کر ستار بجاتے کیا ماہر فن تھے اور وہ اس حوالے سے اپنے فن اور لوگوں کی نیندوں کےساتھ مسلسل ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے رہتے مگر اس حوالے سے دونوں فریق ہمیشہ ناکام رہے۔
اور ہاں آخر میں شہزادی بمباوالی بھی اے بلاک ہی میں رہتی تھی رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کی بیٹی تھی انگلینڈ میں پیدا ہوئی بہت زبردست عورت تھی اسے اپنی روٹس سے بہت پیار تھا جب انگریز چلا گیا تو واپس انڈیا آ گئی اور اپنا وقت شملہ یا لاہور میں گزارتی تھی ماڈل ٹائون میں میری ہمسائی تھی 1957ء میں انتقال کر گئی ۔(جاری ہے)