سرِ دست مقابلہ اسلام آباد وسائل اور کے پی کے وسائل کا دکھائی دینے لگا ہے۔ آمنے سامنے اس وقت ایک صوبائی اور مرکزی انتظامیہ ہے۔ منظر یہ کہ کے پی کے وسائل، پختہ ارادہ اور گیس لائٹنگ ہیں جس سے دیگر صوبوں کے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان توانائی لیتے ہیں۔ خواص و عوام میں چہ میگوئیاں عام ہیں کہ مقتدرہ عنانِ اقتدار کو تھامنا نہیں چاہتی لیکن حالات کے اس نہج پر پہنچنے میں جہاں سیاسی لیڈر شپ کا قصور ہے وہاں مقتدرہ پر بھی حرف آتا ہے۔ ہر ملک کے آئینی اور قانونی معاملات میں انتظامی، حکومتی اور سیاسی امور میں تاریخ، تحریک اور روایات کے اثرات کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے پس اقوام کے سماجی و ثقافتی و مذہبی معاملات کو آئین اور قانون سے ہٹا کر دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اشخاص ہی نہیں جب شہر کے شہر مفلوج ہونے لگیں، عام آدمی بلاوجہ الجھنے لگے، خود احتسابی کے بجائے دوسروں میں عیب ڈھونڈنا قومی وتیرہ بن جائے تو یقیناً تند نہیں تانی بگڑی ہوتی ہے۔ وہاں تانی اور بھی الجھ جاتی ہے جہاں سسٹم میں لوگ شخصیت پرستی کو نظام پر فوقیت دینے لگیں، غیر سیاسی لوگ سیاسی پنڈت سمجھے جانے لگیں اور ادارے اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں مداخلت کی ٹھان لیں۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں : پہلا سوال یہ کہ کیا انقلاب کے دریچے کھلنے والے ہیں؟ دوسرا سوال یہ کہ اس نازک صورت حال میں کون پوری کریڈیبلٹی کے ساتھ مسیحائی اور رہنمائی کے در وا کر سکتا ہے ؟تاریخ کا سبق یاد رکھنے والوں کو یاد ہے کہ الیکشن 1988 میں جب بےنظیر بھٹو اسٹیبلشمنٹ کی پروان چڑھائی سیاسی قوت اسلامی جمہوری اتحاد سے جیت گئیں ، اس سیاسی اتحاد سے جس کا سربراہ پیپلزپارٹی اور بھٹو کا ایک سابق وزیر اعلیٰ اور’’مخلص ترین‘‘ ساتھی غلام مصطفیٰ جتوئی بنایا گیا تھا، اور بعد ازاں بےنظیر بھٹو کے روایتی حریف میاں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اس جیت کو کچھ لوگوں نے الیکشن کے نتائج کے بجائے عوامی ری ایکشن کے نتائج قرار دیا تھا۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال الیکشن 2024 میں ملی، یہ بھی ایک عوامی ری ایکشن تھا اور الیکشن کم۔ دوسری جانب الیکشن 2018 اور الیکشن 2024 کے انتخابی نتائج کی کشیدہ کاری بالترتیب تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے حق میں واضح ہوئی۔ ان دونوں صورتوں میں ملکی و سیاسی و جمہوری حالات کشیدہ ہو گئے۔ دونوں حالات کے پس منظر نے پارلیمان کو مشکوک اور مجبور کر دیا۔ پارلیمانی و سیاسی کہانی تھوڑا اور بھی پیچھے جاتی ہے ، ماضی قریب ہی میں، جب پٹری پر چڑھی گاڑی کو 2017 میں جسٹس (ر) ثاقب نثار کے کانٹا بدلنے پر بےرخ اور بےسمت کردیا گیا۔ ان کل کی باتوں کو جس نے بھی فراموش کیا نتیجہ تو پوری قوم بھگت رہی ہے۔ سیکورٹی ایجنسی کے لوگوں کی شہادتیں، پھر کرم ایجنسی / پارا چنار دہشت گردی کی تازہ لہر کی شہادتیں مگر سب کا دھیان سیاسی کلاکاریوں ہی کی طرف۔ ان حالات میں موجودہ آرمی چیف پر امیدیں سب سے زیادہ اس لئے بندھی ہیں کہ اکثریت ان پر اعتماد کرتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں اعتماد مزید بڑھانے کے سنگ مثبت نتائج کی طرف گامزن ہونے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ موجودہ آرمی چیف سے توقع ہے کہ وہ جمہوری روایات اور انتظامی معاونت کو متوازن لے کر چلیں گے۔ بات پھر وہی کہ سیاسی و سماجی اور روایتی بندھنوں کو یکایک نظر انداز کرنا ممکن نہیں، ارتقاکی جگہ فوری انقلاب لانے بھی آسان اہداف نہیں۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان جیسی ریاست سے ٹکرانا آسان نہیں، پاک فورسز تجربہ کار ہیں ،پروفیشنل بھی۔ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی اس وقت بھی جمعیت علمائے اسلام ، مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی نے بھی احتجاج کئے اور دعوؤں کے ساتھ کئے۔ اسلام آباد تک بھی پہنچے۔ اسلام آباد پہنچ کر عنانِ اقتدار تھام لی تھی کیا؟ ایسے ممکن نہیں ہوتا!
آج کے احتجاج میں جتنا بھی افغان فیکٹر تھا یا ماضی میں جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے اسلام کے احتجاجی مارچ جس قدر بھی منظم ہوتے سوائے احتجاج ریکارڈ کرانے کے فوری کچھ نہیں ملتا۔ ہاں آج وڈیوز بن جاتی ہیں ، سوشل میڈیا پر فوری عکس آجاتے ہیں ماضی میں صرف اخبار پر انحصار ہوتا تھا، سرکاری ٹی وی تو نہیں دکھاتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کیلئے لوگوں نے خود کو آگ لگائی، بےنظیر بھٹو کیلئے کارکنان لاہور ائیرپورٹ سے گوجرانوالہ تک پیدل بھی چلے، میاں نواز شریف کے احتجاجی مارچ کا اگلا سرا ایک شہر اور پچھلا دوسرے شہر تک بھی ہوا لیکن یہ سب اقتدار نہ چھین سکے، جیسے تیسے بھی اقتدار جیتنے ہی پڑے۔ ہمارے سیاسی و حکومتی کلچر میں یہ بھی ایک بدقسمتی اور دوہری چال ہے کہ جب حکومت میں ہوتے ہیں اقتدار بچائے اور بندے اٹھائے جاتے ہیں اور جب اپوزیشن میں ہوں انسانی حقوق اور جمہوریت کیلئے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ اپوزیشن لاشوں کی متلاشی بھی ہوتی ہے، ایسے ہی تحریک انصاف کا عمل رہا اور ہے۔ کنٹینر ہر حکومت لگاتی ہے۔ تحریک انصاف کے وزراء بھی احتجاج کرنے والوں کو یاد کراتے کہ’’خبردار ریاست سے نہ ٹکراؤ ، ریاست کمزور نہیں!‘‘ وہ سب ریکارڈ پر ہے جو ہوش کو دکھائی دے جوش کو نہیں، صاف نظر آرہا ہے اس’’فائنل‘‘کال کے بعد ابھی بہت کالز باقی ہیں سو اِس کال کا نتیجہ زیرو ہے۔ سوچئے! کیا بیلا روس کے صدر کو احتجاج کے انتشار پر چھوڑ دیا جاتا ؟ ہمیں یاد ہے اعلانِ لاہور (21 فروری 1999) اور وزیراعظم واجپائی کی لاہور آمد پر جماعت اسلامی سراپا احتجاج ہوئی جس کا سیاسی فائدہ جماعت کو تو نہ ہوا مگر جنرل مشرف نے اپنے مطالب نکال کر سانحہ 12 اکتوبر 1999 برپا کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔
آتے ہیں آغاز میں اٹھائے گئے پھر 2 سوالات کی طرف: 1۔ کیا انقلاب کے دریچے کھلنے والے ہیں؟ 2۔اس نازک صورت حال میں کون پوری کریڈیبلٹی کے ساتھ مسیحائی اور رہنمائی کے در وا کر سکتا ہے؟ جواب: کوئی انقلاب دستک نہیں دینے والا یہ پرانا حربہ ہے جو رائیگاں جائے گا، قانوں اور مکالمہ ہی نتیجہ خیز ہوں گے۔ پھر تاریخ آرمی چیف اور عدلیہ کی جانب دیکھ رہی ہے، لیکن اس دفعہ یہ دونوں آئین، قانون اور اصول سے ایک انچ بھی آگے پیچھے نہیں ہوں گے، اور فی الحال یہی کریڈیبل ہیں لہٰذا پی ٹی آئی کو تدبر کی ضرورت ہے یہ بےجا لاشیں یا 9 مئی کے مواقع نہ دے، اور اپنی واضح سیاسی مقبولیت اور اہمیت کو آئینی و قانونی اور ڈائیلاگ کے قومی دھارے میں لائے!