قارئین کرام! پاکستان کے قومی ابلاغی دھارے (نیشنل کمیونیکیشن فلو) کے حوالے سے ناچیز نے بطور اسٹوڈنٹ آف کمیونی کیشن سائنس اپنا تھیسز ڈویلپ کیا ہے۔ یہ میرے 52سالہ عملی صحافت اور 42سالہ تدریسی و تحقیقی صحافت کے جاری آخری مرحلے میں تیار ہوا ہے۔ واضح رہے آخر الذکر 40سال سے زائد عشروں میں بھی خاکسار تدریس، صحافت والے حصے میں بدستور عملی صحافت کیساتھ سرگرم بلکہ فقط عملی صحافت والے دور سے بھی زیادہ ایجنڈاسیٹنگ پالیسی اور ایجنڈا سیٹنگ لیول پر کمیونیکشن سائنس کا پریکٹشنر رہا اور ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی سے اور بعد از ریٹائرمنٹ لاہور کی چار نجی یونیورسٹیوں میں 42سالہ تدریسی صحافت و ابلاغیات کے پورے عرصے میں پاکستان کے سب سے بڑے جنگ /ج یو میڈیا گروپ سے بطور ایڈوائز ایڈیٹر، کالمسٹ اور پلانر کچھ خدمات مکمل قابل دید اور بہت سی نادید لیکن ریگولر رہیں۔ قارئین کرام! ناچیز اپنے سی وی کا یہ بنیادی اور غالب حصہ اپنے مزاج اور صحافتی اقدار سے قدرے ہٹ کر پیش کر رہا ہوں، جس کیلئے معذرت خواہ ہوں، تاہم کمیونیکیشن سائنس کی رو سے ہی اسکی منطق واضح اور لازم ہے۔ یوں کہ آج سے ناچیز اپنے متعلقہ تھیسز، پاکستان کے نیشنل کمیونیکیشن فلو کا جائزہ (اور اسکی مطلوب شکل پر) پر ’’آئین نو‘‘ سیریز کا آغاز کر رہا ہے جو وطن عزیز کے جاری دور ابتری میں شدت سے مطلوب ہے۔ قومی ابلاغی دھارے میں تشویشناک حد تک بگاڑو جگاڑ پیدا ہونیکا شدت سے تقاضا ہے کہ ہمارے مجموعی قومی ابلاغ کے بڑے ذرائع جو بنیادی طور پر اپنے پوٹینشل کے اعتبار سے حساس قومی اثاثہ ہے مطلوب مثبت میں منفی کی تشویشناک آمیزش سے گنجلگ ہوگیا ہے، یہ بگڑا ہو اتو تین سال سے ہے لیکن ملکی سطح پر اسکی تشویش کو محسوس کرتے اب مختلف جملہ و جگاڑ سے اسے سنبھالنے کیلئے دو طرفہ جتن کئے جا رہے ہیں۔ یہ سناریو جاری ملکی حالت ابتری میں اپنی جگہ بڑے سوال پیدا کر رہے ہیں، بندۂ ناچیز تو اس پر بھی پریشان ہے اور قرضدار ہوگیا کہ سیاست و روایتی صحافت سے بالاتر ہوکر اپنی نیشنلسٹ سوچ اور پیشہ ور کردار کے توازن سے قومی ابلاغی بگاڑ و جگاڑ کے انسداد و اصلاح کے حوالے سے جوپلّے ہے ڈلیور کیا جائے اور بروقت کیا جائے۔
قارئین کرام! واضح رہے کہ عملی صحافت کی پیشہ ورانہ عملداری پریکٹس پس منظر (بیک گرائونڈ) پیش منظر (حالات حاضرہ) اور فالو اپ (پیشرفت کو لیکر چلتی ہے۔ سو ایک خبر (نیوز) پیشہ صحافت کی کئی پروڈکٹس، فالو اپ نیوز، تجزیے، اداریے، کالم، فیچر، ٹاک شوز، (مکالمہ) انٹرویو، واک پوکس، فیڈ بیک، اہم سیاسی بیانیے اور پبلک ڈس کورس (زبان زدعام عوامی بیانئے) جیسی بیش بہا کمیونیکیشن پراڈکٹس نکلتی ہیں اور قومی زندگی کے ہر شعبے کو اپنے اپنے اثرات سے متاثر کرتی ہیں۔ ان سب میں آڈیو ویڈیو سپورٹ اور پکٹوریل کوریج (فوٹو جرنلزم) ان سب تیار ابلاغی مصنوعات (پیغامات) کا موثر اور حساس معاون ہوتی ہے۔ یوں آج کے جدید ترین جاری دور میں انسانی عقل سلیم کے بعد (یا اس کیساتھ جڑا) بڑا شرف انسانی ’’ابلاغ‘‘ نے انسان کو عطائے رب کریم اوصاف کو اپنے دریافت علم، کھوج اورجستجو سے اوج ثریا پر پہنچا دیا ہے۔ پرنٹنگ مشین کی انقلابی ایجاد سے لیکر آج انٹرنیٹ، سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور آرٹیفشل انٹیلی جنس تک علم ابلاغیات اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی ایجادات، دریافتوں، اختراعات اور انکے انقلابی استعمال نے پورے انسانی معاشرے میں ہلچل مچا دی ہے۔ اور انسان نائب اللہ کے عظیم اور مقدس لقب کا جائز مستحق ثابت ہوا لیکن اپنی شر کی جبلت بھی اسی کے ابلاغ و اعمال سے انسانی معاشرے کے امن و سکون اور فلاح و ارتقاء میں پہاڑ جیسی رکاوٹ بن گئی۔ نہیں بھولنا چاہئے کہ صحافت اور سوسائٹی کا گہرا اور ناگزیر رشتہ ہے۔ کسی عظیم اور نتیجہ خیز پرامن بے مثال سیاسی تحریک پاکستان میں بامقصد، پروپیپل اور استحکام انسانیت کے ایجنڈے کیساتھ جو کمال و جمال پاکستان موومنٹ کی ابلاغ معاونت (برصغیر کے مسلم جرنلزم) کا تشخص بنا اسکی مثال پوری دنیا میں کسی سیاسی اور آزادی کی تحریک کے حوالے سے نہیں ملتی، جب اسکا نتیجہ تخلیق پاکستان کی صورت میں نکلا تو تعمیر وطن بمطابق مقاصد حصول آزاد مملکت مطلوب ابلاغی معاونت کی بنیاد موجود تھی کہ: متحدہ ہندوستان کے جاندار مسلم جرنلزم کا بڑا حصہ نومولود پاکستان میں منتقل ہوگیا اور پاکستان جس اراضی پر بنا ایک اتنا ہی جاندار حصہ یہاں پہلے سے موجود اور تحریک پاکستان میں اپنی تاریخی قلمی صحافتی کاوشوں میں مکمل نتیجہ خیزثابت ہو چکا تھا۔ یہ ایک آئیڈیل صورتحال تھی کہ قائد و اقبال کے تصور پاکستان کے مطابق جنوبی ایشیا میں سیاسی، علمی و قلمی طاقت سے حاصل آزاد وطن کو عظیم تر کردار کے حامل بنانے کیلئے ایک قابل اعتماد قومی سطح کا ابلاغی ڈھانچہ موجود تھا۔ گو ابتدا میں ہی اسکی اٹھان، کردار اور سیاست کی قباحتوں کے باوجود پیشہ ورانہ صلاحیت اور جذبہ تعمیر وطن بدرجہ اتم موجود تھا۔ لیکن سیاست و انتظامیہ کی سرچڑھتی مکاریوں نے اعلیٰ اقدار اور تاریخی کردار کی حامل پاکستان کی پروان چڑھتی قومی صحافت اور نومولود قومی ابلاغی دھارے کی تشکیل میں رکاوٹیں ڈالنے اور رنگ میں بھنگ ملانے کا سلسلہ بزور اختیار و کھلواڑ شروع کردیا۔ لیکن یہ اتنا آسان تو نہ تھا کہ مثالی پس منظر اور تاریخی کردار کی پاکستانی صحافت دب جاتی، سو اسکی مزاحمت اور ارتقاء آمرانہ حکومتی ہتھکنڈوں اور سیاسی و انتظامی مکاریوں کے باوجود ایک بار پھر مثالی انداز میں جاری رہا اور پاکستانی میڈیائی پریکٹس آمرانہ حکومتی اقدامات کیساتھ ساتھ تعمیر وطن کیلئے جاری و ساری رہی حتیٰ کہ اسکا 1965ء کی جنگ میں کردار کامیاب ترین نفسیاتی جنگ کے متوازن محاذ کا بن گیا۔ (جاری ہے)