پنجابی کی مشہور کہاوت ’’ویاہ لوکاں دا،تے خوشیاں پھتو دے ویہڑے‘‘کو مختلف انداز میں بیان کیا جاتا ہے مثال کے طور پر اردو میں کہتے ہیں ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘۔جب میں اپنے ہم وطنوں کو کسی اور ملک کے حالات و واقعات پر جشن مناتے اور جھومتے گاتے دیکھتا ہوں تو یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ہم نے خود گھوڑی چڑھنے کے بجائے پرائی شادیوں میں ناچنے کاتہیہ کرلیا ہوا ہے۔ترکی میں ٹینکوں کے آگے لیٹ جانے سے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی تک ہم نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔آجکل شام میں باغیوں کی فتح پر کشتوں کے پشتے لگے ہوئے ہیں ۔اسی طرح گزشتہ ہفتے جنوبی کوریا میں مارشل لا کے نفاذ کی کوشش ناکام ہوجانے پر طفلان انقلاب نے ناچ ناچ کر پازیب توڑ ڈالی ۔بچگانہ پن یہیں تک محدود ہوتا تو الگ بات تھی ،المیہ یہ ہے کہ نونہالان انقلاب کو بس ناچنے سے غرض ہے ،ایسے واقعات سے سبق حاصل کرنے میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔سوچا کیوں نہ جنوبی کوریا سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی جائے۔
جزیرہ نما کوریا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان سے آزادی حاصل کی تو دو ہاتھیوں کی لڑائی میں پھنس گیا۔ایک طرف سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل بلاک اور دوسری طرف امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک۔آپ اسے سرد جنگ کہیں یا دو عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم،کوریا پنجاب کی طرح دو حصوں میں بٹ گیا۔شمالی کوریا اور جنوبی کوریا۔بٹوارے کے بعد جنوبی کوریا مغرب نواز کیمپ کا حصہ بن گیاجبکہ شمالی کوریا نے کمیونسٹ دھڑے میں شمولیت اختیار کرلی۔ دونوں ممالک کی آب و ہوا اور جغرافیائی حالات ہی نہیں ثقافتی و تہذیبی ورثہ بھی مشترک ہے اور عادات و اطوار میں بھی کوئی خاص فرق نہیں مگر معاشی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔جنوبی کوریا ایک خوشحال اورترقی یافتہ ملک ہے جس کا جی ڈی پی 1.713 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ شمالی کوریا انتہائی پسماندہ اور غریب ملک ہے جس کا جی ڈی پی محض 29.6ارب ڈالر ہے۔جنوبی کوریا کی بر آمدات 808ارب ڈالر سالانہ ہیں جبکہ شمالی کوریا کی بر آمدات کا تخمینہ 4ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔شمالی کوریا کے مقابلے میں جنوبی کوریا کے باشندے خوشحال ہیں اور ان کا طرز زندگی پرتگال اور اسپین جیسا ہے اس لیے ان کی اوسط عمر 79.3برس ہے جبکہ شمالی کوریا کے شہریوں کے حالات زندگی افریقی ممالک سے بھی بدتر ہیں اس لیے ان کی اوسط عمر 69برس ہے۔شمالی کوریا کو محض دو حوالوں سے جنوبی کوریا پر برتری حاصل ہے۔ایک تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق شمالی کوریا دنیا کا بدعنوان ترین ملک ہے اور دوسرے شمالی کوریا کے دفاعی اخراجات اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔جنوبی کوریا نسبتا ً بڑا ملک ہے اس کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ ہے اور اس کی مسلح افواج کی تعداد (بشمول ریزرو فورس)655000ہے اور یہ اپنے جی ڈی پی کا 2.8فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے جبکہ شمالی کوریا کی آبادی اڑھائی کروڑ ہے اس کی مسلح افواج کی تعداد 1190000ہے اور یہ دفاع پر جی ڈی پی کا 22.3فیصد خرچ کرتا ہے۔اگر کوئی شخص یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ قوموں کی ترقی و خوشحالی کا راز کیا ہے اور قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں تو جنوبی اور شمالی کوریا کی صورت میں دو رول ماڈل موجود ہیں۔ایک ملک آمریت کے راستے پر چلا،سیکورٹی اسٹیٹ کا ماڈل اختیار کیا،قدامت پسندی اور ریاستی جبر کے بل پر آگے بڑھنا چاہا،ملکی دفاع کو اپنی طاقت بنایا اور آج ایک ناکام ریاست کے طور پر سامنے ہے۔اس کے برعکس جنوبی کوریا نے جمہوریت کا راستہ منتخب کیا،فری اکانومی کو فروغ دیا،اظہار رائے کی آزادی اور افراد کے حق ملکیت کو تسلیم کیا،جمہوری اداروں کی مضبوطی کو اپنی طاقت بنایا اور آج ایک کامیاب رول ماڈل کے طور پر سامنے ہے۔جنوبی کوریا چھوٹا سا ملک ہے مگر آٹوموبائل انڈسٹری ،الیکٹرانکس،ٹیلی کمیونیکیشن ،ایرو اسپیس ،فارماسیوٹیکل اور آئل اینڈ گیس انڈسٹری سمیت کئی شعبہ جات میں اس کا راج ہے۔یہ واحد ملک ہے جہاں ریسٹورنٹس میں 10فیصد سے زائد روبوٹ کام کررہے ہیں یعنی ہر10ہزار ملازمین میں سے 1102روبوٹ ہیں۔ایل جی ،سیم سنگ ،ہنڈائی اورکیا سمیت کتنے ہی مشہور برانڈز دنیا بھر میں مشہور ہیں۔
اگر ہم جنوبی کوریا میں مارشل لاکی تاریخ جاننے کی کوشش کریں گے تو کالم طویل ہوجائے گالہٰذا فی الحال موجودہ واقعات پر ہی اکتفاکرتے ہیں۔جنوبی کوریا میں صدارتی پارلیمانی نظام رائج ہے۔موجودہ صدر Yoon Suk Yealسن 2022ء میں بہت کم مارجن سے منتخب ہوئے۔10اپریل 2024ء کو عام انتخابات ہوئے تو صدر صاحب لنگڑی بطخ بن گئے کیونکہ حکمران جماعت پیپل پاور پارٹی 300کے ایوان میں صرف 108نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکی جبکہ اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے 175نشستیں جیت لیں۔صدر صاحب کی اہلیہ پر کرپشن اور انتظامی معاملات میں مداخلت کے سنگین الزامات ہیں۔جب ان کے احتساب کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو اپوزیشن نے چند وفاقی وزرا کے علاوہ پبلک پراسکیوٹرز کے مواخذے کی کارروائی شروع کردی۔صدر صاحب کے پاس ویٹو پاور ہے وہ پارلیمنٹ کے کسی بھی بل کو مسترد کرسکتے ہیں لیکن بجٹ کو استثنیٰ حاصل ہے ۔جب معاملات ہاتھ سے نکلتے ہوئے محسوس ہوئے تو 3دسمبرکی شام صدر صاحب ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اوراپوزیشن پر ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے مارشل لا لگانے کا اعلان کردیا۔اس پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے متحد اور متفق ہوکر جمہوریت بچانے کا اعلا ن کردیا۔دونوں جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رکاوٹوں کے باوجود ایوان میں پہنچے ،مارشل لا لگانے کے فیصلے کے خلاف قرار داد منظور کی اور صدر مملکت کو نہ صرف یہ فیصلہ واپس لینا پڑا بلکہ انہوں نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی بھی مانگ لی ہے۔بیگانی شادی میں ناچنے کے بجائے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟اس لئے کہ یہاں ہر قائد انقلاب ان سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہے جن کے پاس طاقت ہے۔سیاسی قیادت ایسے قومی معاملات پر بھی یکجا نہیں ہوپاتی کیونکہ تبدیلی کے پیامبر بیانئے کے اسیر ہیں۔انکے نزدیک سب سیاستدان چور اور ڈاکو ہیںجن سے ہاتھ نہیں ملایا جاسکتا۔