• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14 روزہ امریکا یاترا ( دوسری اور آخری قسط)

ہم نے پہلا پڑاؤ کوکا کولا کمپنی کے ہیڈ آفس پر ڈالا۔ اُس کے بعد خُوب صُورت ایکیوریم، اولمپکس پارک کی (کہ دونوں ساتھ ساتھ جُڑے ہیں) سیر کی۔ ہر جگہ سیاحوں کا رش دیدنی تھا، زیادہ تر ٹورسٹس دوسری ریاستوں سے آئے ہوئے تھے۔ اس قدر ہی گھوم پِھر لینے کے بعد سخت تھکاوٹ ہوگئی تھی۔ 

دوستوں سے کہا کہ ’’اب کل صُبح ہی ملاقات ہوگی۔‘‘ نیپالی دوستوں نےبتایا کہ ’’ہم صبح نیویارک کےلیے نکل رہے ہیں، صرف ایک ہی سیشن اٹینڈ کریں گے۔‘‘ تو اُن سے الوداعی ملاقات کی۔قریب ہی ایک ٹیکسی رُکی، ڈرائیور اونچی آواز میں بولا۔ '' ''Come inside غور سے دیکھا، تو وہی کینیا کا ڈرائیور تھا، جس نےصبح کرائون پلازا ہوٹل سے حیات ریجینسی چھوڑا تھا۔ مَیں بلاتردّد بیٹھ گیا۔ ہوٹل اُتر کر کرایہ پوچھا، تو بولا۔ ’’ 12ڈالرز۔‘‘ مَیں نےدس ڈالرکانوٹ تھمایا اور کہا۔ ’’حساب برابر۔‘‘ اُس نے بآوازِ بلند قہقہہ لگایا اور اپنی زبان میں کوئی جگت لگا کر چل نکلا۔

میڈیا کانفرنس کاچوتھا اورآخری دن تھا۔ پتا چلا، تقریباً50 فی صد لوگ واپس جا چُکے ہیں۔ مَیں نے بھی ہوٹل سے صُبح ہی چیک آئوٹ کرلیا تھا۔ کانفرنس ہوٹل میں تین دن ایک دوسرے سے بھرپور آشنائی کے بعد اب لوگوں کی اپنے اپنے شہروں، مُلکوں کی طرف روانگی تھی، بہرحال، آخری سیشن میں 5 سے 7 لوگوں کا گروپ بنا کر اے آئی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کوئی کمپنی لانچ کرنی تھی، اور اُس میں ہر ایک کو کوئی نہ کوئی رول پلے کرنا تھا، میرے گروپ میں ناروے کے جرنلسٹ شامل تھے۔ بڑے ہی محنتی، ہنس مُکھ اور فرینڈلی، تقریباً7 گروپس نے اپنے اپنے آئیڈیاز پیش کیے، اورہماری دوسری پوزیشن آئی۔ آخر میں قہقہوں کے دوران دوستوں سےکارڈزکا تبادلہ ہوا، اور کانفرنس اختتام کوپہنچی۔ 

کانفرنس کے بعد، پہلا پڑاؤ کوکا کولا کمپنی کے ہیڈ آفس پر ڈالا
کانفرنس کے بعد، پہلا پڑاؤ کوکا کولا کمپنی کے ہیڈ آفس پر ڈالا

اس کے بعد تقریباً دوپہر 3بجے سے رات آٹھ بجے تک لابی میں انڈین جرنلسٹس کے سے زبردست گپ شپ رہی، جن میں نصر، عائشہ اور سچیتا نمایاں تھے۔ کوئی ایسا موضوع نہیں تھا، جس پرخُوب کُھل کر بات چیت نہ ہوئی ہو۔ بعض باتوں پر اختلاف بھی ہوا، لیکن سب نے فراخ دلی سے ایک دوسرے کا موقف سُنا اور سمجھا۔ نصر IFUJ سے تھے، علی گڑھ کےہیں، لیکن دہلی میں رہائش پذیرہیں۔ عائشہ خان نیویارک ٹائمز سے وابستہ ہیں اور نیویارک میں رہائش رکھتی ہیں۔ اور سچیتا، ممبئی میں رہائش پذیرہیں۔ 

ہم چاروں کا اگلا پڑاؤ نیویارک میں تھا۔ عائشہ چھے بجے ایئرپورٹ کے لیے نکل گئیں، مَیں نے حفظِ ماتقدّم کے طور پر ٹیکسی والے کو رات آٹھ بجے بلایا ہوا تھا، حالاں کہ نیویارک کے لیے فلائیٹ صبح 5:45 کی تھی۔ بہرحال، وہ بھی ایک تھکا دینے والی رات تھی۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اٹلانٹا ایئرپورٹ پر یہ پہاڑ جیسی رات کیسے گزرے گی۔ 

سو، کوشش شروع کی کہ کسی طرح رات بارہ یا ایک بجے والی کوئی فلائیٹ مل جائے، لیکن کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی۔ بڑے بھائی سےفون پر بات کررہا تھا کہ اچانک پنجابی زبان میں گفتگو سُن کے ایک تقریباً ساٹھ سالہ شخص میرے ساتھ والی کرسی پر آبیٹھے۔ فون رکھا تو اپنا تعارف کرواتے ہوئے بولے۔ ’’زاہد فرام کراچی، آپ غالباً لاہور سے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’جی، جی بالکل، پکّا لاہوری۔‘‘ اور پھر رات گیارہ سے صبح چار بجے تک اُن کے ساتھ ایسی بھرپور گپ شپ ہوئی کہ وقت گزرنےکا پتا ہی نہیں چلا۔ 

وہ بھی نیویارک جا رہے تھے، لیکن فلائیٹ یونائیٹڈ کی تھی، اور میری جیٹ بلیوکی۔ خیر، سامان بُک کروانے، بورڈنگ پاس ملنے اور پھر تفصیلی چیک اَپ، ٹرین وغیرہ کے سفر کے بعد مقررہ گیٹ پر پہنچے، تو نہ نہ کرتے بھی ہم تقریباً دو ڈھائی کلومیٹر پیدل چل چُکے تھے، یہاں سے زاہد نے مجھ سے رخصت لی، اور مَیں اپنا بورڈنگ پاس لیے جہاز میں داخل ہوگیا۔ 

پتا چلا کہ میری سیٹ جہاز کی دُم میں ہے، یعنی سب سے آخری سِیٹ۔ بھاری بھرکم امریکیوں کےدرمیان سے گزرتے اپنی سِیٹ پر پہنچا، توپتا چلا کہ میری سِیٹ کے ساتھ میری جسامت سےدگنے حجم کا ایک ’’جوڑا‘‘ موجود ہے۔ مَیں نے کھڑکی والی سِیٹ کا انتخاب کیا، لیکن ٹیک آف کے فوراً بعد احساس ہوگیا کہ فیصلہ غلط ہے۔ فلائیٹ اٹینڈینٹ بھی صورتِ حال بھانپ چُکا تھا۔ اُس نے جوڑے سے کہا کہ ’’آپ اُٹھیں اور کھڑکی اور درمیان والی سِیٹ لیں۔ اِن صاحب کو Isle سیٹ دے دیں۔‘‘ شُکر کہ وہ مان گئےاور مجھےسُکون کی سانس آئی۔

نیویارک ایئرپورٹ پرلینڈنگ کے بعد جیسے ہی جہاز سے باہرآئیں، تو ''Big Apple'' کی خُوشبو ویلکم کرتی ہےاورآپ کو پتا چلتاہےکہ آپ اصل امریکا تو اب آئے ہیں۔ چند ہی لمحوں میں سامان پہنچ گیا، تو بھانجے سارنگ کو فون کیا۔ اُس نے بتایا۔ ’’پانچ منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔‘‘ ایک ہجومِ بےکراں میں اپنے کزن طارق اور بھانجے پر نظر پڑی، تو دل باغ باغ ہوگیا۔ آگے بڑھ کے بڑی جذباتی سی جپّھی ڈالی اور وہاں سے نیو جرسی کے لیے روانہ ہوئے۔

 17 سال پہلے کے نیوجرسی اور آج کے نیوجرسی میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہ ہوا، تقریبا سبھی راستے، گھر ویسے ہی تھے، گھرجانے سے پہلے Bagel shop پر رُکے، اور بیکل وِد ایگ اینڈ چیز آرڈر کیا، ساتھ میں کافی کا بڑامگ، بیکنگ کی بھینی بھینی خوشبو نے ساری تھکاوٹ اُتار دی کہ تقریباً 26 گھنٹے سے جاگ رہا تھا۔ گھر پہنچ کے ناشتے کے بعد شاور لیا اور تیار ہوگیا، کیوں کہ طارق بھائی نے گھر پر 30 لوگوں کی دعوت کا اہتمام کررکھا تھا۔ 

نیویارک اور کونیکٹیکٹ سے سب دوست آرہے تھے۔ بیک یارڈ میں خنکی تھی، لیکن سیاسی بحث نے موسم گرما دیا۔ کیٹرنگ زبردست تھی، باربی کیوسے لےکر لبِ شیریں تک سب شان دار، شام میں مہمان رخصت ہوئے تو پھر مَیں تھا اور میرا بستر۔

اگلے دن صبح 8 بجے آنکھ کُھلی۔ اگلے چار دن سارنگ اور طارق بھائی کے ساتھ ہی گزرے۔ انہوں نے پردیس میں بھی، پردیس کا احساس ہی نہیں ہونے دیا، ایک ڈنر شالیمار ٹریول ایجینسی کے روحِ رواں شکور عالم اور اُن کے بھتیجے کی طرف سے تھا، اور ریسٹورنٹ تھا شنواری، واہ کیا کمال کا کھانا تھا، ذائقے میں بالکل لاہوری کھانوں جیسا۔

ایک دن سینئر جرنلسٹ سلیم صدیقی سے ملنے اُن کے گھر گئے اور وہیں سے نیو جرسی کی مشہور بورڈ واک اور سمندر پر بھی گئے، گھنیرے بادل، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، اور سمندر سے ٹکراتی لہروں کی آوازوں نےایک طلسماتی سا ماحول بنا رکھا تھا۔ ورکنگ ڈے کی وجہ سے رش بھی بالکل بھی نہیں تھا۔وہیں آئس کریم کھائی اورواپسی کی راہ لی۔ 

امریکا کے ’’شنواری‘‘ کا ذائقہ بالکللاہوری کھانوں سا لگا
امریکا کے ’’شنواری‘‘ کا ذائقہ بالکل
لاہوری کھانوں سا لگا

جیسے ہی گھر والی سڑک کی طرف مُڑے، تو آگے ایک اسکول بس کھڑی تھی، طارق بھائی نے گاڑی روک لی۔ تھوڑے انتظار کے بعد مَیں نے کہا۔ ’’سائیڈ سے گاڑی گزارنے کی کافی جگہ ہے، آپ گاڑی نکال لیں۔‘‘(کہ ہم پاکستانی خاصے بےصبرے واقع ہوئے ہیں۔) تو طارق بھائی بولے۔ ’’یہاں آپ اسکول بس کواوور ٹیک نہیں کر سکتے۔‘‘

ہماری گاڑی کے پیچھے بھی دو تین گاڑیاں کھڑی ہوگئیں اور مجال ہے، کسی نے ہارن بھی دیا ہو۔ اسکول بس رُکنے کا سین بھی بہت ہی دل پذیر تھا۔ وومین بس ڈرائیور گاڑی سے اُتری۔ گاڑی کا آٹومیٹک دروازہ کُھلا، ایک چھوٹی سی کرین باہر آکے لینڈ ہوئی اور پھر ایک بچّے کی وہیل چیئر اُتری۔ بچّے کے والدین آئے اور بچّے کی وہیل چیئرلےکر گھر کی طرف چلے گئے۔ 

خاتون ڈرائیورنے لفٹ کلوزکی، بس کا دروازہ بند ہوا اور اسکول بس آگے روانہ ہوگئی۔ اور…مَیں سوچتا ہی رہ گیا کہ ایک اسکول کے بچّے کا ایسا پروٹوکول، انسانیت کاایسا شان دار عملی مظاہرہ۔ 

تادیر اس اس طرزِ عمل کے سحر سے باہر نہ آسکا۔ مَیں جس دن نیو جرسی پہنچا، طارق بھائی نے کہا کہ ’’تمام دوستوں کو یہاں کی لوکیشن Pin کردو، جو نزدیک ترین ہوگا، ملنے آجائےگا، اور اگر کوئی دوسری اسٹیٹ سے 80-100 ڈالرز کا ٹکٹ لےکر آتا ہے، تو ایئر پورٹ کا پِک اینڈ ڈراپ ہم دےدیں گے۔‘‘ 

دوسری اسٹیٹ تو دُور کی بات، کوئی نیویارک سے بھی نہ آسکا۔ خیر، اگلے روز ہم نے ٹائم اسکوائر جانے کا پروگرام بنا لیا کہ اگر وہاں حاضری نہ دیتے، تو یار دوستوں نے کہنا تھا کہ ’’ایویں بلف مار رہا ہے، نیویارک گیا ہی نہیں۔‘‘

ویسے جب سے marijuana کو لیگل قرار دیا گیا ہے، ٹائم اسکوائر جیسی جگہوں پر زیادہ دیر رُکنا آسان نہیں۔ ٹائم اسکوائر کا ماحول بالکل اپنے دیہات کے میلے ٹھیلوں جیسا ہی لگا۔ بھانت بھانت کے لوگ مختلف کرتب دِکھا دِکھا کرتوجّہ حاصل کرتے، ڈالرز بٹورتے نظر آئے۔ مشہور اینکر رضا رومی سے ملاقات کا وقت یہیں طے ہوا تھا اور ہو بھی گئی۔ 

وہ CUNYC میں پڑھاتے ہیں اور ٹائم اسکوائر کے قریب ہی رہائش پذیر ہیں، وہاں سے واپسی پریونین اسکوائر نیویارک فلم اکیڈمی کے دِنوں کی یاد تازہ کی۔ کچھ وقت لبرٹی پارک میں گزارا، موسم اور ماحول کمال کا تھا، رات گئے واپسی ہوئی۔ طارق بھائی کی اہلیہ نے پائے، مٹن پلاؤ، اورگرل چکن پیسز سے تواضع کی۔

اگلے دن واپسی تھی، ناشتے پرعجب اداسی سی چھائی ہوئی تھی۔ بھانجے سارنگ کی آنکھیں بھرآئیں، تومجھ سےبھی رہا نہ گیا، طارق بھائی نے اصرار کیا کہ چند دن اور رُک جاتے، لیکن بہرحال، میری اُسی روز فلائیٹ تھی اورایئر پورٹ تک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تھی۔ ایئر پورٹ پر سب کو بھاری دل سے الوداع کہا۔ بورڈنگ ہوئی، جہاز میں بیٹھا، تو دیکھا قطر ایئرویزکی اِس فلائیٹ میں بنگلادیش کے وزیرِ اعظم بھی تشریف فرما ہیں۔ اُن کا عملہ دبنگ نوجوانوں پر (20 کے قریب) مشتمل تھا۔ 

سب پینٹ، شرٹس، کوٹس میں ملبوس اکانومی کلاس سے آئے اورخُوب رونق لگائے رکھی۔ ٹیک آف سےچند منٹ پہلےایک پیسنجر کودل میں تکلیف محسوس ہوئی۔ کیپٹن نےاناؤنس کیا کہ پیسنجر کو گراؤنڈ سےمیڈیکل ایڈدی جائے گی۔ اِس پوری ایکسرسائز میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ پریشانی یہ تھی کہ کہیں دوحا سے کنیکٹینگ فلائٹ مِس نہ ہوجائے، لیکن پائلٹ کوداد دینی پڑی۔ ویسے کچھ قسمت بھی مہربان تھی۔ 

ہم جیسے ہی تقریباً 11 گھنٹے کی مسافت کےبعد دوحا ایئرپورٹ اُترے، لاہور کی فلائیٹ کی اناؤنسمینٹ ہورہی تھی۔ کچھ سو ڈالرز دوحا ایئرپورٹ کے ڈیوٹی فری شاپ کے لیے بچا رکھے تھے، لیکن جیسے ہی لاؤنج میں پہنچا، قطر ائیرویز کی فلپائنی میزبان کی آواز سُنائی دی۔’’لاھور، لاھور… پلیز، گوٹو گیٹ نمبر 10۔‘‘ یوں ڈیوٹی فری شاپ والیرقم تو بچ گئی، مگر جہاز میں داخل ہوتے ہی منیر نیازی کا شعریاد آگیا ؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو…مَیں ایک دریا کے پار اُترا تو مَیں نے دیکھا۔ جہاز چھوٹا تھا اور مسافروں سے نکونک بھرا ہوا تھا۔ 

جہاں میری سِیٹ تھی، وہاں ایک خاتون لگ بھگ ڈھائی سال کی عُمر کے twins اور ایک کوئی چھے ماہ کی عُمرکا بچّہ گود میں لیے بیٹھی تھیں۔مجھے دیکھتے ہی بولیں۔ ’’بھائی! میری ایک سِیٹ پیچھے ہے۔ آپ وہاں ایڈجسٹ ہوجائیں، میرے ٹوئنز ایک دوسرے سے الگ سفر نہیں کرتے۔‘‘ پچھلی سیٹ پر دو نقاب پوش خواتین موجود تھیں، جب کہ درمیان کی سیٹ خالی تھی۔ 

اِس سے پہلے کہ مَیں کچھ کہتا، میرا تھکا ہوا چہرہ دیکھ کر ایک آنٹی خُود ہی اُٹھیں اور باحجاب خواتین سےکہاکہ’’آپ ساتھ ساتھ ہوجائیں اور خُود Isle سِیٹ پر بیٹھ گئیں۔ شاید جہاز میں آنے والے مسافروں میں میرا آخری نمبر تھا کہ بیٹھنے کے چند لمحوں بعد ہی جہاز نے لاہور کے لیے پرواز بَھرلی۔ سِیٹ پر دراز ہوتے ہی ’’امریکا یاترا‘‘ کی تمام باتیں، کسی فلم کی طرح ذہن کی اسکرین پرچلنے لگیں۔ 

تقریباً رات بارہ بجے جہاز نے لاہور لینڈ کیا۔ فوراً ہی ایئرپورٹ سے باہر نکلا، تو زوجہ محترمہ اور بیٹا استقبال کے لیے موجود تھے۔ وطنِ عزیز کی ہوائوں، فضائوں نے بھی خُوب خیرمقدم  کیا۔ اور پھر’’ہوم، سوئیٹ ہوم‘‘ کی طرف گام زن ہونے کا تو لُطف و سحر ہی الگ ہوتا ہے۔