• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، غا لباً یہ بات حکیم سنیکا نے کہی تھی کہ انسان کو زندگی میں کسی ایک فلسفی کو اپنا دوست بنا لینا چاہیے، مراد یہ ہے کہ جو فلسفی آپ کو پسند ہو اُس کی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ میں نے اِس قول میں کچھ یوں ترمیم کی ہے کہ فلسفے کے معاملے میں بندے کو دل پھینک ہونا چاہیے یعنی کسی ایک فلسفی کے ساتھ نتھی ہونے کی بجائے زیادہ سے زیادہ فلاسفہ کے ساتھ وقت گزارا جائے۔ مجھے فلسفے کی لَت کافی بعد میں لگی، ابتدا میں میرا خیال تھا کہ فلسفے کے پاس کسی سوال کا واضح اور ٹھوس جواب نہیں، لیکن بعد میں پتا چلا کہ فلسفے میں جوابات سے زیادہ سوالات کی اہمیت ہوتی ہے۔ فلسفے میں ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہر نظریے پر سوال اٹھایا جاتا ہے، کسی بات کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا، حتّیٰ کہ اُن چیزوں کا بھی ثبوت مانگا جاتا ہے جو ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سُنتے ہیں۔ کسی دعوے کو محض اِس لیے درست تسلیم نہیں کر لیا جاتا کہ سالہا سال سے لوگ اُس پر یقین کر رہے ہیں۔ بارِ ثبوت فلسفی پر ہوتا ہے، ہر مفروضے کو اُس نے ثابت کرنا ہے، اگر کوئی غریب کہہ دے کہ سورج لاکھوں برس سے طلوع ہو رہا ہے لہٰذا کل بھی طلوع ہو گا تو سارے فلسفی لٹھ لے کر اُس کے پیچھے پڑ جائیں گے کہ اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل بھی طلوع ہوگا! اور ایسے فلاسفہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے دو جمع دو چار جیسے مُسلَّمات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور کہا کہ چونکہ یہ ساری جمع تفریق ہمارے ذہن کی اختراع ہے اور ذہن کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب کیا سوچ لے لہٰذا ثابت نہیں ہوتا کہ دو جمع دو چار ہی ہوتے ہیں، ممکن ہے کسی اور کائنات میں یہ چھ ہو جائیں۔ ذرا ذہن کی بھی سُن لیں۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ یہ جو دنیا ہمیں نظر آتی ہے دراصل یہ ویسی نہیں، یعنی ممکن ہے کہ یہ ویسی ہی ہو جیسی نظر آتی ہے لیکن ضروری نہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص کی دنیا دوسرے سے مختلف ہو کیونکہ ایک آدمی کا دماغ اُسے دنیا کا جو رنگ دکھاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ رنگ دوسرے آدمی کو سرے سے دکھائی ہی نہ دے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہو اور ہم سچ مچ کی دنیا میں سچ مچ ہی جی رہے ہوں، جس کا امکان ہے بھی اور نہیں بھی۔ لیکن ٹھہریے۔ ایک فلسفی کی اِس بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ مردِ عاقل اِس کائنات کے بارے میں ہی سوال اٹھا دیتا ہے کہ آخر یہ وجود ہی کیوں رکھتی ہے۔ اِس لمحے انسان سوچتا ہے کہ ’خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں!‘

فلسفے کے یہ سوالات بے حد دلچسپ ہیں لیکن فلسفہ فقط اِن سوالات کے گرد نہیں گھومتا، یہ دیگر بہت سے مسائل کا بھی احاطہ کرتا ہے جن کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہے جن میں سے ایک بنیادی مسئلہ اخلاقیات کا ہے۔ کیا زندگی اعلیٰ اخلاقی معیار کے مطابق گزارنی چاہیے؟ یہ اخلاقی معیار کیا ہے؟ اور کیا ایسی زندگی مسرت کی ضمانت بھی دیتی ہے؟ اور پھر یہ مسرت کیا ہے؟ کیا اِس ضمن میں ہر انسان کیلئے یکساں معیار اور پیمانہ مقرر کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوالات صدیوں سے انسان کا پیچھا کر رہے ہیں، اور ایسا نہیں ہے کہ فلاسفہ نے اِن کے جوابات فراہم نہ کیے ہوں، ارسطو، کانٹ، سپینوزا، نیطشے اور رسل وغیرہ نے اِن سوالوں پر خاصی بحث کی ہے لیکن آخری تجزیے میں اِن سب کو پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے آپس میں لڑنے بھڑنے کے باوجود یہ تمام فلسفی اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور اِن میں سے کوئی بھی غلط نہیں۔ اسی کے ساتھ فلسفے کا ایک اور بنیادی سوال بھی جُڑا ہوا ہے کہ آخر زندگی ہے کیا؟ ایک فلسفی کی نظروں میں غم کا دریا ہے جبکہ دوسرے کے خیال میں سعی لا حاصل ہے۔ فلسفے کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی سوال کے جواب سے آپ کی تشفی نہ بھی ہو تو آپ اُس موضوع پر مختلف فلسفیوں کے افکار پڑھ کر اپنی رائے ضرور قائم کر سکتے ہیں، بعض اوقات کسی فلسفی کا کوئی قول آپ کے دل کو چھُو جاتا ہے جس سے آپ کی زندگی بدل سکتی ہے۔ فلسفے کی حدود کا تعین کرنا مشکل ہے۔ فلسفی سائنس میں منہ مارتے ہیں، مذہب کے مقدمے کی پڑتال کرتے ہیں، تصور خدا پر بحث کرتے ہیں اور فنونِ لطیفہ کا تعین بھی کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ حسن کا معیار کیا ہے، آرٹ کو کیسے پرکھا جائے، خدا کے وجود پر دلائل میں کتنا وزن ہے اور سائنس کی حدود کیا ہیں۔ تاہم میرے نزدیک فلسفے کی سب سے زیادہ افادیت سیاسیات میں ہے۔ فلسفے کی ایک شاخ پولیٹکل فلاسفی کہلاتی ہے، یہ ریاست اور سیاست کے علم کے گرد گھومتی ہے۔ فرد کا ریاست سے کیا رشتہ ہے، سوشل کنٹرکٹ کیا ہے، جمہوریت کیا ہے، شخصی آزادی کی کیا حدود ہیں، ریاست کی اتھارٹی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے، اکثریت کی حکومت کا کیا تصور ہے، انصاف پسند حکمران کیسا ہوتا ہے، معاشرہ کیسے تشکیل پاتا ہے، انفرادی معاملات میں ریاست کی مداخلت کی کیا حد ہے، وغیرہ۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات فلسفیوں نےنسبتاً نےزیادہ واضح انداز میں دیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے نظام اُن سیاسی اصولوں کی بنیاد پر وضع کرکے کامیابی سے چلا لیے ہیں۔

اِس سے پہلے کہ میں موضوع سے ہَٹ جاؤں، فلسفے پر واپس آتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مستقبل میں فلسفے کا علم مزید پیچیدہ اور دقیق ہو جائے گا کیونکہ مصنوعی ذہانت کے دور میں پرانے تصورات فرسودہ ہو جائیں گے اور اگلی صدی تک ہم ایسے اچھوتے مسائل کا سامنا کر رہے ہوں گے کہ جن سے نمٹنے کے لیے شاید ہمیں فلاسفی کی ایک نئی شاخ ایجاد کرنی پڑے۔ نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ آنے والا دور مزید خطرناک ہوگا لیکن شکر ہے کہ اُس وقت ہم زندہ نہیں ہوں گے۔ یہ موت بھی کیسی نعمت ہے، ایک اور فلسفی کی بات یاد آگئی جس نے کہا تھا کہ ہم فانی انسانوں کا ایک وقت مقرر ہے، موت سے مفر ممکن نہیں، تمام انسانوں کی زندگیوں کا سانچہ ایک سا ہے، کوئی برسوں بھی جی لے زندگی سے دائمی مسرت کشید نہیں کر سکتا، ہم چاہے اپنی زندگی کو طویل بنانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن ہم اُس وقت کو کم نہیں کر پائیں گے جو ہماری موت کے بعد ہوگا کیونکہ موت کے بعد عدمِ وجود کی ’کیفیت ہر کسی کیلئے یکساں ہوگی‘۔ بے شک یہ بات ایک حقیقت ہے لیکن فلسفے کا اگر کوئی منفی پہلو ہے تو وہ یہی ہے کہ بسا اوقات یہ انسان کو اِس قدر خوفناک Reality Check دیتا ہے کہ بندے کو زندگی بے معنیٰ لگنے لگتی ہے، اور زندگی کے معنیٰ کیا ہیں، یہ کوئی فلسفی آج تک نہیں بتا سکا!

تازہ ترین