’’ملزم جون ایلیا حاضر ہو‘‘، ہرکارے نے آواز لگائی اور تالیوں کے شور میں جون بھائی کٹہرے کی طرف بڑھنے لگے، ہرکارے نے کامل سنجیدگی سے ایک ’ملزم‘ کے لیے تالیاں بجانے والوں کو سرزنش کی، تالیوں کی گونج میں قہقہے بھی شامل ہو گئے، جون بھائی کٹہرے میں پہنچے اور ملزم کیلئے سجائی گئی خصوصی کرسی پر متمکن ہو گئے۔ ملزم سیاہ کوٹ پتلون اور کالے چشمے میں شاعر سے زیادہ راک سٹار لگ رہا ہے۔
یہ منظر ہے مرکزِ سادات امروہہ کے کھچا کھچ بھرے مرکزی ہال کا جہاں ایک ادبی عدالت میں جون ایلیا کو ’’گرفتار‘‘ کر کے لایا گیا ہے، وکیلِ استغاثہ شکیل عادل زادہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ملزم جون ایلیا شہر کے نوجوانوں کو بہکا رہا ہے، ان کے کچےذہنوں میں بغاوت کے بیج بو رہا ہے۔ ملزم نے اپنے دفاع کے لیے پنجاب سے دو عدد وکلائے صفائی بلوا رکھے ہیں، احمد عقیل روبی اور حماد غزنوی۔ اپنے موکل کے دفاع میں حماد غزنوی نے دلائل کے آغاز میں ہی ملزم کے چند اشعار پڑھے تو شکیل عادل زادہ چلائے ’’اوب جیکشن می لارڈ، یہ عدالت کو سحرزدہ کرنے کی سازش ہے، وکیل صفائی کو ملزم کے دل کش اشعار پڑھنے سے روکا جائے۔‘‘ ادبی عدالت کے معزز جج حق نواز اختر (سابق چیئرمین پاکستان سٹیل ملز) نے مسکراتے ہوئے کہا ’’اوب جیکشن اوور رولڈ‘‘۔ قصہ مختصر، جون ایلیا کو ادبی عدالت نے باعزت بری کر دیا۔
تقریب کے آخر میں جون بھائی نے مجھے اپنے درجنوں دوستوں سے ملوایا، ایک صاحب سے تعارف کراتے ہوئے کہنے لگے ساقی بھائی کو تو تم جانتے ہی ہو گے، میں نے نفی میں سر ہلایا تو یک دم بڑے جذب کے عالم میں ساقی امروہوی کا شعر سنایا، ’’میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا...مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ جمال احسانی سے تاجل بیوس تک بہت سے دوستوں سے ملواتے ہوئے میرے تعارف میںیہ جملہ ضرور شامل کرتے کہ ’’ حماد لاہور میں ہمارے میزبان ہوتے ہیں‘‘۔ جون بھائی بڑے شوق سے مجھے اپنی دنیا دکھانا چاہتے تھے، اپنے دوست اپنا گھرانہ، اپنی محفلیں، سو کراچی میں اگلے پانچ سات دن یادگار ٹھہرے۔ جہاں رات ہو جاتی ہم وہیں سو جاتے، جون بھائی اور ان کے احباب کے لیے یہ شب بسریاں معمول کی بات لگ رہی تھیں، گو کہ میرے لیے وہ ایک دل چسپ تجربہ تھا۔ایک صبح ہم معروف لکھاری محمد علی صدیقی صاحب کے ہاںبیدار ہوئے تو جون بھائی نے اعلان کیا کہ آج ہم للن کے اسٹوڈیو جائیں گے، اور کچھ ہی دیر بعد ہم جون بھائی کے بھتیجے یعنی للن کے اسٹوڈیو پہنچ چکے تھے۔ یہ نگار خانہِ اقبال مہدی ہے جہاں ’شاید‘ کا ابتدائیہ لکھا گیا تھا۔اقبال مہدی کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی نیم سے بھی کم وا آنکھیں تھیں، لہجہ سویا ہوا تھا، ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، ویسے بھی بات چیت میں ان کی دل چسپی واجبی سی تھی۔ بڑے لوگ منہ مانگی قیمت پر ان سے پورٹریٹ بنواتے تھے جس سے وہ معاشی طور پر مستحکم ہو چکے تھے۔ کچھ ہی دیر میں للن کی بیگم چچا جون کو سلام کرنے آئیں تو جون بھائی نے ان کا تعارف کروایا کہ یہ شاہدہ بٹیا ہیں اور دیو بندی ہیں،پھر ارشاد فرمایا کہ دل کے معاملات میں کیا شیعہ کیا سنی۔ یہ بھی جون بھائی کا ایک خاص رنگ تھا، ان کی زبان سے شیعہ سنی کوئی حساس مسئلہ نہیں لگتا تھا۔
سہ پہر ہوئی تو للن نے چچا جون سے مشورہ کیا اور بہت جلد دونوں میں اتفاق ہو گیا کہ موزوں وقت آن پہنچا ہے۔ ِ ابیض سے معاملہ آغاز ہوا، شام میں احمر سے ہوتا ہوا ارغوانی منطقے میں داخل ہو گیا۔ اس دوران اچانک اقبال مہدی بولے ’’آئیے حماد صاحب میں آپ کو اپنا کمرا دکھاتا ہوں، جون بھائی نے بھی بھرپور تائید کی کہ’ ہاں بھئی دیکھنے کی چیز ہے‘۔ ہم تینوں نگار خانے کے ساتھ واقع ایک کمرے کے سامنے پہنچ گئے جس کا آہنی دروازہ کافی بڑا اورمضبوط دکھائی دیتا تھا، اس ساخت و ہیئت کا دروازہ گھر کے اندر نہ پہلے کبھی دیکھا نہ اس کے بعد کبھی نظر سے گزرا۔ خیر، دروازہ کھلا اور ہم کمرے میں داخل ہوئے، یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا، ریل کے ڈبے کی طرح کے لمبوترے سے کمرے کی تین دیواریں فرش سے چھت تک پُر از خمر ظروف کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں۔ اور جو ایک دیوار بچی تھی اس پر نیچے سے اوپر تک سینکڑوں پینٹنگ برش سجے ہوئے تھے، نہ جانے کس کس نایاب جانور کی دُم کے بنے ہوئے مُوقلم۔ بھائی للن کی آنکھیں قدرے کُھل چکی تھیں اور ان کے چہرے کی تمتماہٹ اور طمانیت دیدنی تھی۔ پھر وہ یوں گویا ہوئے ’’اب مجھے دنیا سے کچھ غرض نہیں رہی، مجھے اس زندگی میں جو کچھ چاہیے وہ اس کمرے میں موجود ہے ، اہلِ حکم اور اہلِ ثروت میرے لیے بے معنیٰ ہو چکے ہیں، اس کمرے نے مجھے غنی کر دیا ہے ‘‘۔اسی عالمِ وفور میں بھائی للن نے زمین پر قرمزی مخمل کے غلاف میں لپٹی ہوئی کسی شے کے بند کھولنا شروع کئے، بند کھلے تو میں نے دیکھا کہ شیشے کا ایک دو ڈھائی فٹ اونچا مرتبان ہے جس میں ایک اژدھا سرخ خمر میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس منظر سے جون بھائی بھی چونکے، اور مرتبان سے دو قدم دور ہوتے ہوئے بولے ’’للن، یہ زندہ ہے؟‘‘جس کے جواب میں بھائی للن بولے کہ ’’چچا، ابھی دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر بھائی للن نے نہ جانے کیسے وہ اچھا خاصا بڑا اور بھاری مرتبان زمین سے اٹھا لیا، اب جون بھائی باآوازِ بلند للن کو اس حرکت سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر بھائی للن نے ان کی ایک نہ سنی اور مسکراتے ہوئے مرتبان منہ سے لگا لیا، مرتبان کا دہانہ بہت بڑا تھا، سرخ مشروب کی ایک دھار بھائی للن کے سفید کرتے پر گر نے لگی، مرتبان میں اژدہا ہلکے ہلکے ہل رہا تھا، اب جون بھائی باقاعدہ چیخ رہے تھے، ’’یہ شراب حرام ہے للن، یہ شراب حرام ہے‘‘۔