ایک امریکی اپنے دوستوں کو پسندیدہ لطیفہ سنا رہا تھا۔ ’’جہنم ایک ایسی جگہ ہے جہاں باورچی برطانوی ہیں، ویٹر فرانسیسی ہیں، پولیس والے جرمن ہیں اور ٹرینیں اطالوی چلاتے ہیں۔“ گروپ میں موجود واحد یورپی نے ایک لمحے کیلئے لطیفے پر غور کیا اور جواب دیا، ’’میں پولیس اور ٹرینوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ باہر سے کھانا کھانے کے بارے میں شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو کیونکہ جہنم کے ریستوران میں جہاں باورچی برطانوی اور ویٹر فرانسیسی ہوں گے، وہاں گاہک سب کے سب امریکی ہی ہوں گے!“
ہم چاہے امریکیوں کو پسندکریں یا نہ کریں، ایک بات یقینی ہے کہ وہ خاصے ’جولی‘ قسم کے لوگ ہیں۔ لیکن امریکہ اِس وجہ سے سپرپاور نہیں ہے کہ امریکی مخولیے ہیں بلکہ امریکہ کی طاقت کا راز اُس کے نظام کی وجہ سے ہے جس کی بنیاد اُن کا آئین ہے جسے وہاں مقدس دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ میں ڈنگر نہیں ہوتے، بے شک امریکہ بھی اِس دولت سے مالا مال ہے بلکہ سچ کہوں تو جتنی اعلیٰ نسل کے ڈنگر امریکہ میں پائے جاتے ہیں شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف عام امریکی ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے مشہور و معروف لوگ بھی حسبِ توفیق ڈنگر ہیں۔ یقیناًآپ میں سے کچھ سیانے لوگ اِس بات کا ثبوت طلب کریں گے تو اُن کیلئے میں کچھ قصے پیش کر دیتا ہوں۔ سب سے پہلے مشہور امریکی گلوکارہ اور اداکارہ ماریہ کیری کی بات کرتے ہیں۔ کسی انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے موصوفہ نے کہا کہ’’میں جب بھی ٹی وی دیکھتی ہوں اور پوری دنیا کے غریب بھوکے بچوں کو دیکھتی ہوں تو اپنے آنسو نہیں روک پاتی۔ میرا مطلب ہے کہ میں انہی کی طرح دبلا پتلا ہونا چاہتی ہوں مگر اِس طرح نہیں کہ میرے ارد گرد مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں اور موت میرے سر پر منڈلا رہی ہو‘‘۔ اس بیان سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہالی ووڈ کی اکثر اداکاراؤں کے درمیان ہمیشہ افریقی بچوں کو گود لینے کی دوڑ کیوں ہوتی ہے، شاید وہ ان سے سیکھنا چاہتی ہیں کہ تیس دنوں میں دبلا کیسے ہوا جاتا ہے!
نیویارک سٹی کے ایک میئر ڈیوڈ ڈنکنز نے ٹیکس چوری کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے کوئی جرم نہیں کیا، میں تو فقط ایک قانون پر عمل نہ کرسکا“۔ یعنی آنجناب کا مطلب یہ تھا کہ کسی قانون پر عمل نہ کرنا بھلا جرم کیسے ہو گیا۔ مجھے تو یہ نیویارک سے زیادہ فیصل آباد کا مئیر لگتا ہے۔ اِس سے مجھے ہمارے کمانڈو صدر پرویز مشرف کی یاد بھی آ گئی، آنجہانی صدر نے قوم سے اپنے مشہور زمانہ خطاب میں فوجی وردی اتارنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں آئین کی خلاف ورزی نہیں کروں گا‘‘۔ اور پھر تین نومبر کو ایمرجنسی کی شکل میں ’’میگا مارشل لا‘‘ لگانے کے بعد جنرل صاحب نے کہا، ’’یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ بس تھوڑا سا ماورائے آئین ہے۔‘‘
ڈنگر پن میں واشنگٹن بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اِس شہر کی مئیر ماریون بیری نے اپنے شہر کے بارے میں کہا،’’قتل کے واقعات کے علاوہ، واشنگٹن میں جرائم کی شرح پورے ملک میں سب سے کم ہے۔‘‘ اسے کہتے ہیں اعداد و شمار کا درست استعمال۔ میرے خیال میں ہمارے لیڈران کو بھی اِسی قسم کی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعدادوشمار سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور غیرملکی میڈیا کے سامنے ملک کی مثبت تصویر کشی کرتے ہوئے اِس طرح کے بیانات دینے چاہئیں کہ’’خودکش بم دھماکوں، شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں، اور اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی میں ہونے والی ہلاکتوں کو چھوڑ کر، پاکستان میں جرائم کی شرح خطے میں سب سے کم ہے۔‘‘
خوبصورت امریکی اداکارہ، بروک شیلڈز نے وفاقی انسداد تمباکو نوشی مہم کی ترجمان بنتے ہوئے ایک انٹرویو کے دوران کہا،’’تمباکو نوشی جان لیوا ہے۔ ذرا سوچیے، اگر آپ جان سے ہی چلے گئے تو آپ نے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ کھو دیا۔‘‘ مجھے نہیں پتا کہ یہ بیان کس قدر درست ہے، جب میں کالج میں تھا تو بروک شیلڈز میری پسندیدہ اداکارہ ہوا کرتی تھیں، اداکاری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی معصوم شکل کی وجہ سے، اور اس بیان نے کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی ’خطرناک حد تک‘ معصوم ہے۔ تاہم میرے ایک دوست کو اس کی معصومیت پر شک ہے، اُس کا خیال ہے کہ جب ہالی وُڈ کی اداکارہ آپ کو معصوم لگے تو درحقیقت آپ خود معصوم ہیں!
اب ایک سابق امریکی نائب صدر ڈین کوئل کا بیان بھی سُن لیں جنہوں نے کہا تھا کہ’’یہ آلودگی نہیں ہے جو ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے، یہ ہماری ہوا اور پانی میں موجود نجاستیں ہیں جو آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس خود ساختہ بیان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا جو ایک ایسے شخص کی طرف سے آیا جو امریکی نائب صدر کے عہدے پر فائز تھا۔ لیکن میں اس کیلئے نائب صدر کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا کیونکہ امریکیوں کو جارج بش کی صورت میں اِس سے بھی ’اعلیٰ پائے‘ کے شخص کو صدر منتخب کرنے کااعزاز حاصل ہے جس نے ایک بار کہا تھا، ’’میں کمانڈر ہوں، اسی لیے مجھے کسی چیز کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں، مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں کس وجہ سے کوئی بات کرتا ہوں، صدر ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔‘‘ یہ بات باب وُڈورڈنے اپنی کتاب ’’بش ایٹ وار‘‘ میں لکھی ہے،لیکن یہ تمام لوگ میرے محبوب لیڈر کے پیروں کی خاک بھی نہیں، میرا محبوب قائد ڈونلڈ ٹرمپ، جس نے دوسری مرتبہ امریکہ کا صدر منتخب ہو کر ثابت کیا ہے کہ ’’وہی جواں ہے قبيلے کی آنکھ کا تارا،شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے ارشادات اگر میں یہاں نقل کرنے لگوں تو کئی صفحے کالے کرنے پڑیں گے، یوں بھی میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ ٹرمپ جیسی عظیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھ سکوں۔ اِس ضمن میں امریکی ٹی وی کے کامیڈی پروگراموں سے استفادہ کرنا زیادہ مناسب ہوگا، اِس سے آپ کا ویک اینڈ بھی اچھا گزر جائے گا اور طبیعت بھی ہشاش بشاش رہے گی۔
ہم ہمیشہ اپنے ملک، سیاست، حکمرانی کے ڈھانچے، تعلیمی نظام، اخلاقیات کے معیارات اور سیاست کا امریکیوں سے موازنہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے لیکن اگلی بار اگر کوئی آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ امریکی کس قدر ذہین فطین قوم ہیں تو یہ بات تسلیم کرنے سے پہلے کم از کم دو بار سوچیے گا!
کالم کی دُم:جن لوگوں کو اِس کالم میں لفظ ’ڈنگر‘ کھل رہا ہے اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ امریکیوں کیلئے یہ نہایت پارلیمانی لفظ ہے کیونکہ اُن کے اپنے انتخابی نشانات اُلو اور گدھا ہیں، سو زیادہ تردد کی ضرورت نہیں۔