صرف پاکستان تحریک انصاف کے مخالفین ہی نہیں بلکہ حامی بھی یہ رائے قائم کرنے لگے ہیں کہ پی-ٹی-آئی کی بنیاد جھوٹ، فریب، شر اور جارحیت پر قائم ہے کیونکہ ان کے دونوں چہرے انتہائی خوفناک ہیں - پہلا شرپسندی اور ریاست دشمنی اور دوسرا مظلوم و معصوم - دونوں روپ عوام اور عمران خان سے محبت کرنے والوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کافی ہیں لیکن یہ حرکات سیاسی شعبدہ بازی کے زمرے میں آتی ہیں اور حب الوطنی کے معنوںمیںنہیں۔ایک طرف اندرونی ٹوت پھوٹ کے باوجود حکومت سے مذاکرات اور دوسری جانب علی امین گنڈاپور کا یہ اعلان کہ ہم گولی کا جواب گولی سے دینے کے لئے تیار ہیں اور ہمارے پاس طاقتور اسلحہ موجود ہے اور ہم اسلحہ چلانا بھی جانتے ہیں، اس شعلہ بیانی کو کیا معنی پہنائے جا سکتے ہیں؟ کیا پی۔ٹی-آئی مذاکرات کی آڑ میں ملک کے خلاف کسی نئی تخریب کاری کی تیاری میں ہے؟کیونکہ گنڈاپور نے پھر مرکز کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے!کہا جاتا ہے کہ عمران خان حکومت یا سنجیدہ سیاست کرنے نہیں آئے بلکہ پاکستان کے خلاف بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اس وقت میدان میں اتارے گئے جب پاکستان کو توڑنے کی خواہش رکھنے والی طاقتوں کو معلوم ہوگیاکہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی اساس مضبوط ہونے کی وجہ سے یہ ملک ناقابل تسخیر ہے تو انہوںنے عمران خان کی صورت میں ملک کے اندر سے ہی اپنا ’’ہم خیال‘‘ جس میں ان کا پاکستان دشمن ایجنڈا مکمل کرنے کی اہلیت موجود تھی،پاکستان میں منافرت، سول نافرمانی، بغاوت، معاشرے خصوصاً نوجوان نسل کو گمراہی کے راستے پرڈال کر اور اداروں کی تقسیم کے ذریعے ملک کے ٹکڑے کرنےکیلئے پاکستان میں پلانٹ کردیا۔9مئی کے بلوے اوربغاوت کے بعد پی-ٹی-آئی کی قیادت نے اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے یہ اشتعال انگیز الزام عائد کیا کہ پی-ٹی-آئی کی گرفتار خواتین پر جیل میں جنسی تشدد کیا گیا۔لیکن یہ سازش اس وقت دم توڑ گئی جب گرفتار ہونے والی پارٹی کی ہر خاتون نے اس الزام کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا۔اس کے چند ماہ بعد نوجوانوں میں اشتعال پیدا کرنے کیلئے حکومت کے خلاف بنگلہ دیش طرز کے پر تشدد مظاہرے کرانے اور حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے یہ جھوٹی خبر اڑائی گئی کہ میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کوجنسی تشدد کے بعد قتل کردیا گیا ہے جس کی فوری تحقیقات کیلئے حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر سائبرکرائم سرکل کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی لیکن بڑے پیمانے پر سراغرسانی کے نتیجے میں گرفتاریوں کے باوجود نہ تو جنسی تشدد کا شکار ہونے والی طالبہ ملی، اس کی لاش نہ جائے واردات اور نہ ہی اس کے وارثوں کا پتہ ملا تاہم ایک بار پھرتحریک انصاف کی جانب سے ملک میں پرتشدد، بلوے کرانے اورسڑکوں پر معصوم عوام کا خون بہانے کی سازش ناکام ہونے کے باوجود عدلیہ کی سردروی کے باعث اس سازش میں ملوث ملک دشمن گروہ کو سزائیں نہیں ہوئیں۔ تیسرا بڑا دھوکہ 24نومبر کو اسلام آباد پر یلغار کی کال اور اس میں ناکامی کو چھپانے کے لئے ظالم سے مظلوم اور شرپسند سے امن پسندی کا بہروپ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور یہ خبر پھیلا دی کہ 26 نومبر کی شام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے سیکڑوں کارکن جاں بحق ہوئے اور ان کی لاشیں غائب کر لی گئیں، جب یہ بیانیہ بھی دم توڑ گیا تو پی-ٹی۔آئی کی قیادت نے کارکنوں کوخودساختہ ہلاکتوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کے فورم پر یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ حکومت کو اس واقعہ پر معافی مانگنی چاہئے۔ لیکن پی-ٹی-آئی جھوٹے بیانیوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرکے سیاست میں زندہ رہنا چاہتی ہے۔لیکن اپنی مظلومیت کا شور مچانے والی پی-ٹی-آئی اپنی دہشتگرد وارداتوں اور شرپسندانہ مزاج پر توجہ دینے کی بجائے خود کو مظلوم اور معصوم ثابت کرنے کے لئے جھوٹے بیانیوں کا سہارا لیتے ہیں اور یہ طرز سیاست ان کے منشور کا حصہ بن چکا ہے۔ کیا انہیں 24 سے 26 کی اسلام آباد پر مسلح اور منظم حملہ کے دوران ہونے والی دہشتگردی یاد نہیں جب پی-ٹی-آئی کے شرپسند عناصر کی جارحیت سے اسلام آباد غزہ کا منظر پیش کر رہا تھا اور غیرملکی ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی تھی۔یہ پہلا موقع نہیں تھا جب عمران خان نے اس وقت ملک کی سلامتی خطرے میں نہ ڈالی ہو بلکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران ملک کی سلامتی پر کئی بار ایسے نازک مواقع پر حملہ آور ہوئے جب ملک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب عوام عمران خان کے اصل چہرے سے آشنا ہوچکے تھے لیکن بڑے انتظامی حادثے سے بچنے کے لئے اگر 2022میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی-ٹی-آئی کی حکومت کا خاتمہ نہ ہوتا تو یہ پارٹی اپنی موت آپ مر جاتی کیونکہ اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں پاکستان اور عوام دشمن پالیسیاں بے نقاب ہوگئی تھیں اور پارٹی اپنی ساکھ اور مقبولیت کھو چکی تھی لیکن اگر تحریک عدم اعتماد نہ آتی توعمران خان آئندہ پندرہ سالوں کے لئے اقتدار پر قابض رہتے۔