عمران خان کی سیاست کا سفرلمبا اور مختلف موڑیا یوٹرن سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی قیادت نے پاکستانی عوام میں امید اور جوش پیدا کیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی فیصلے ایسے بھی سامنے آئے جو نہ صرف متنازعہ رہے بلکہ ان کے اثرات بھی قومی سطح پر محسوس کیے گئے۔ ان کے چند فیصلے اور اقدامات، جن کا مقصد ایک خاص نقطہ نظر یا ایجنڈا حاصل کرنا تھا، پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا گئے۔ عمران خان کے ناقدین اکثر ان کی سیاسی حکمت عملی کو غیر حقیقی اور غیر عملی قرار دیتے ہیں۔ ان کے اقتدار کے دوران کئی اہم مواقع پر فیصلوں کی کمی یا غیر مناسب فیصلے دیکھنے کو ملے۔ مثلاً، ان کا یہ اصرار کہ وہ کسی بھی صورت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے، ان کے لئے مسائل کا باعث بنا۔ ایک کامیاب سیاسی رہنما کے لئے ضروری ہے کہ وہ اختلافات کو ختم کرنے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، لیکن عمران خان نے اپنے رویے سے یہ تاثر دیا کہ وہ سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس ضد نے نہ صرف پارلیمنٹ کو کمزور کیا بلکہ جمہوری عمل پر بھی منفی اثر ڈالا۔ دوسری بڑی غلطی ان کا عالمی برادری اور خاص طور پر مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے غیر متوازن رویہ تھا۔ انہوں نے ایک طرف امریکہ کے خلاف سخت بیانات دیے اور دوسری طرف چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات کی کوشش کی۔ اس غیر واضح حکمت عملی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا۔ پاکستان جیسے ملک کے لئے، جو اپنی معیشت کے لئے بیرونی امداد پر انحصار کرتا ہے، ایسے فیصلے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے دوران ایک بڑا چیلنج معیشت کا تھا۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی دعویٰ کیا کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کرینگے اور معیشت کو درست سمت میں لے جائینگے۔ لیکن ان کے معاشی فیصلے نہ صرف ناکام ثابت ہوئے بلکہ انہوں نے مہنگائی، بے روزگاری اور قرضوں میں اضافہ کیا۔ ایک اور متنازعہ قدم عمران خان کی جانب سے ریاستی اداروں کو عوامی جلسوں میں تنقید کا نشانہ بنانا تھا۔ یہ ایک خطرناک رجحان تھا کیونکہ اس نے نہ صرف اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ عوام میں تقسیم بھی پیدا کی۔ ریاستی اداروں کا استحکام کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہےاور ان پر عوامی سطح پر تنقید کا مطلب ان کی خود مختاری کو چیلنج کرنا ہے۔ حالیہ دنوں میں عمران خان کی جانب سے عوام کو ریاست کے خلاف مختلف انداز میں احتجاج کرنے کی ترغیب دینا، جیسے کہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک میں زرمبادلہ نہ بھیجنے کی اپیل کرنا، ایک خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ قدم تھا۔ سول نافرمانی کسی بھی ملک کیلئے ایک حساس مسئلہ ہے۔ یہ ریاستی عملداری کو کمزور کرتا ہے اور افراتفری کا باعث بنتا ہے۔ اس قسم کی اپیلوں کا مقصد شاید ریاست پر دباؤ ڈالنا ہو، لیکن ان کے اثرات ہمیشہ منفی ہوتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست میں ایک اور بڑا مسئلہ ان کا خود کو واحد نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنا ہے۔ وہ اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ رویہ نہ صرف جمہوری اصولوں کیخلاف ہے بلکہ اس سے عوام میں دیگر قیادت کے بارے میں بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ایک کامیاب جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ مختلف قیادتیں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور عوام کو یہ یقین ہو کہ ملک کی بھلائی کیلئے سب مل کر کام کر سکتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے حالیہ دنوں میں دیے گئے بیانات اور اپیلوں نے انکی سیاست کو ایک خطرناک رخ دیا ہے۔ ان کی جانب سے عوام کو ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دینا، چاہے وہ سول نافرمانی ہو یا دیگر ذرائع سے ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش، ملک کے لئے کسی بھی صورت فائدہ مند نہیں ہو سکتی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عمران خان کے کئی فیصلے اور اقدامات ان کی قیادت کی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ وہ ایک اچھے رہنما ہو سکتے تھے اگر وہ اپنی سیاست کو زیادہ تعمیری اور ذمہ دارانہ انداز میں چلاتے۔ لیکن ان کے غیر متوازن رویے، غیر مناسب فیصلے اور ریاستی اداروں کے خلاف بیانات نے نہ صرف ان کی قیادت کو نقصان پہنچایا بلکہ پاکستان کو بھی ایک پیچیدہ صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ ایک رہنما کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ذاتی ایجنڈے کو قومی مفادات پر ترجیح نہ دے۔ عمران خان کیلئے بھی یہ وقت ہے کہ وہ اپنے ماضی کے فیصلوں پر غور کریں اور ایک ایسے راستے کا انتخاب کریں جو ملک کیلئے فائدہ مند ہو۔ ریاست کیخلاف احتجاج یا زرمبادلہ کی ترسیل کو روکنے جیسے اقدامات کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو سکتے۔ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ جذبات میں آ کر ایسے فیصلے نہ کریں جو ملک کیلئے نقصان دہ ہوں۔ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ ہر شہری اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ملک کے مفادات کو اولیت دے۔