جھنگ میں 2014ء میں رشتے سے انکار پر لڑکی، اُس کی والدہ اور بچے پر تیزاب پھینکنے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔
عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی اور ریمارکس دیے کہ عام قتل میں عناد مختلف ہوتا ہے۔
دوران سماعت ملزم عصمت اللہ کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل پر انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی) دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے شیڈول میں جرم کا آنا الگ چیز ہے، دہشت گردی کے واقعہ میں ریاست سے دشمنی وجہ عناد ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسداددہشت گردی کے تحت کسی جرم کا شیڈول کے زمرے میں لانے کی وجہ جلد ٹرائل ہوتا ہے، عام قتل میں عناد مختلف ہوتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جج نے یہ بھی کہا کہ کوئٹہ میں وکلا پر دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ ہوا جس کا مقصد عدالتی نظام کو جام کرنا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس میں دہشت گردوں کی بچوں سے دشمنی نہیں تھی، مقصد ریاست سے دشمنی اور نظام کو جام کرنا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر دہشت گرد گروہ اغوا کرے تو تاوان کا پیسہ دہشت گردانہ کارروائیوں کےلیے استعمال ہوتا ہے، اگر کوئی عام شخص تاوان کےلیے اغوا کرے تو اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل جوڈیشل کمیشن کے مجوزہ رولز پبلک کیے ہیں، مجوزہ رولز کےلیے اب دیکھنا ہے کہ نامزد امیدوار کو قانون کی کتنی سمجھ بوجھ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے مجوزہ قواعد میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی جوڈیشل کمیشن ممبر کو اپروچ کرے گا تو نااہل ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ رشتے سے انکار پر تیزاب پھینکنا انتہائی المناک واقعہ ہے۔
اس موقع پر جسٹس شہزاد احمد ملک نے کہا کہ بچیوں پر تیزاب پھینکنا بہت بڑا ظلم ہے، جس سے لڑکیوں کی ساری زندگی تباہ ہوجاتی ہے، وکیل صاحب تیاری کرکے آئیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اپروچ تو بدقسمتی سے خیر، ویسے جو اپروچ کرتے ہیں وہ بتاتے نہیں ہیں۔
عدالت نے وکیل صفائی کو کیس کی تیاری کےلیے وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
جھنگ کے رہائشی عصمت اللہ کو تیزاب گردی کے الزام پرعمر قید کی سزا ہوئی تھی، 2014 میں وقوعہ پیش آیا۔