قیام پاکستان کے بعد سب سے اہم اور بڑے نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان پر قرآن حکیم کی تلاوت اور قرأت کی سعادت حاصل کرنے والوں میں قاری غلام رسول مرحوم کا نام سرفہرست تھا۔ انہوں نے اگرچہ بظاہر کسی دینی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن قرآن حکیم کی تلاوت اور انتہائی حسین اور موثر انداز میں قرأت میں جو مقام انہیں حاصل ہوا وہ ان کی زندگی میں پاکستان میں کسی دوسرے قاری کو نصیب نہ ہوا۔ انہیں متعدد موقعوں پر غیر ممالک میں یعنی قرأت کے مقابلوں کیلئے بلایا جاتا رہا ۔ سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین براہ راست ان سے رابطہ کرکے انہیں تلاوت قرآن پاک کی دعوت دیتے جو وہ قبول کرلیتے۔ ان پیدائش بھی لاہور کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقے میں ہوئی تھی جو آج شہر کا اہم اور انتہائی گنجان آباد علاقہ ہے۔تمام دینی مدارس کے ساتھ ان کا رابطہ رہا اور وہاں ان کی آمد و رفت بھی جاری رہی ،جہاں وہ زیر تعلیم طلبا کو تلاوت قرآن پاک اور قرأت سکھاتے۔ ریڈیو پاکستان کے بعد جب اہم نشریاتی ادارے ٹی وی کا آغاز ہوا تو وہاں بھی انہیں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور کم و بیش روزانہ وہ ٹی وی پر کسی تقریب کی صورت میں تلاوت قرآن پاک سے سامعین کو اپنی حسین اور دلکش آواز سے اس درجہ متاثر کرتے کہ ہر شخص دیوانہ وار ان کی تلاوت سننے کے لئے بے تاب نظر آتا تھا۔ پاکستان میں کم و بیش تمام اسلامی ممالک کے قارئین یعنی قرآن حکیم کی تلاوت میں شہرت رکھنے والوں کی ایک تقریب بھی منعقد ہوئی تھی جس میں اس دور کے عالمی شہرت یافتہ قاری عبدالباسط بھی شریک تھے اور موجودہ واپڈا ہائوس میں انہیں ٹھہرایا گیا۔قاری غلام رسول مرحوم کے ساتھ میرا رابطہ ہمیشہ قائم رہا اور اس موقع پر انہوں نے مجھے قاری عبدالباسط سے ملاقات کا شرف بخشا ۔مجھے ہاتھ پکڑ کر اس کے کمرے میں لے گئے ان سے میرا تعارف کرایا اور ہم دیر تک محو گفتگو رہے۔ یہ ان کا احسان عظیم تھا جسے میں آج تک فراموش نہیں کرپایا۔ کچھ عرصہ بعد ٹی وی کے بعض حضرات سے نامعلوم کس بنا پر اختلاف پیدا ہوا اور پھر انہوں نے ٹی وی پر تلاوت کا سلسلہ بھی ختم کردیا۔ یہ گویا ان کی توہین تھی بہرحال وہ اس پر خاموش رہے اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ کینیڈا منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے ایک دینی مدرسہ قائم کیا اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو اپنی کوششوں کا محور و مرکز بنایا۔بڑی تعداد میں انہوں نے لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ ان کی دینی درسگاہ آج بھی کینیڈا میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ انہوں نے لاہور میں فیصل ٹائون کے علاقے میں بھی ایک دینی درسگاہ قائم کی لیکن اس کیلئے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا، یہ دینی مدرسہ آج بھی خدمات انجام دینے میں مصروف ہے۔ وفات سے چند روز پہلے وہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور اس موقع پر ان سے میری ایک مختصر ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے اپنی طبیعت کے ناساز ہونے اور بعض جسمانی عوارض کا ذکر کیا ۔دو تین روز بعد ان کی رحلت کی خبر نے عشروں پر محیط ان سے ملاقاتوں کی یاد ایک مرتبہ پھر تازہ کردی لیکن ا ب ان سے ہم کلام ہونے کا موقع دم توڑ گیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بہت کم دینی مدارس اور حلقوں نے ان کی وفات حسرت آیات پر رنج و غم کا اظہار کیا لیکن وہ نہ اس کے محتاج تھے نہ آئندہ انہیں ان کے رنج و غم کے اظہار کی ضرورت محسوس ہوگی ۔