بےشک سرحدیں تاریخ کے زخم ہیں۔ انسان تو کائنات کی شہریت رکھتا ہے۔ پاسپورٹس اور ویزے وغیرہ قطعاً کوئی خوبصورت چیزیں نہیں۔ یہ مجبوریاں ہیں جو پاکستان میں مسلسل بڑھ رہی ہیں ۔اس وقت پاکستانیوں کو پاسپورٹ نہیں مل رہے ۔امیگریشن اینڈ پاسپورٹ حکام نے تصدیق کی ہے کہ التوا کا شکار پاسپورٹس کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ نارمل فیس کے ساتھ پاسپورٹ دسمبر دو ہزار تیئس کے بعد پرنٹ ہی نہیں ہوئے۔ ارجنٹ فیس والوں کو بھی مہینوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے پیچھے کیا معاملہ ہے کیا پالیسی ہے ۔کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔لیکن پاسپورٹ کے بغیر سفر کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔جس کے نتیجے میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا ریٹ تیس پینتیس لاکھ تک پہنچ چکا ہے ۔جس میں موت کا خطرہ بھی شامل ہے ۔دو ہزار میں یونان کے ساحلوں پر ایک کشتی میں بے شمار پاکستانی ہلاک ہوئے ۔ابھی پھر ایک کشتی ڈوب گئی ہے یا ڈبو دی گئی ہے اس پر مبینہ طور پر چوراسی پاکستانی لیبیا کے ساحل سے سوار ہوئے ۔یونان میں پاکستانی سفارتی حکام کے مطابق سینتالیس کو بچا لیا گیا اور آٹھ ہلاکتوں کی تصدیق کر دی گئی ۔اصل تعداد کا علم ابھی تک کسی کو نہیں ۔دلچسپ خبر یہ ہے کہ اس ریکٹ کا سرغنہ کسی کیس میں جیل کے اندر تھا ۔جیسےہی کشتی ڈوبنے کی خبر آئی ۔اس کی ضمانت بھی ہوگئی وہ غائب ہو گیا۔ روایت کے مطابق غفلت برتنے والے ایف آئی اے کے اہل کاروں کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ (مبارک ہو)۔ ایک مبارک باد اور بھی قبول کر لیں کہ ایف آئی اے نے دو ہزار تیئس کے کشتی حادثے کا مرکزی ملزم بیس دسمبر دوہزار چوبیس کو گجرات سے گرفتار کر لیا ہے۔ ایسی کارکردگی یقیناً نوبل پرائز دینے کے قابل ہے ۔اس کشتی میں دو سو باسٹھ پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔ یعنی ملزم پر دو باسٹھ افراد کے قتل کا مقدمہ ہےاور ایف آئی اے نے اسے ڈیڑھ سال بعد گرفتار کیا ہے۔
اس کشتی میں بچے بھی تھے ۔ایک تیرہ سالہ بچہ بھی یورپ جارہا تھا ۔اس کے باپ نے تیس لاکھ روپے دے کر انجانے میں اس کی موت خرید لی۔ پسرور کے انیس سالہ نوجوان نے بتیس لاکھ میں اپنی موت کا سودا کیا۔ خبر یہ بھی ہے کہ ایف آئی اے نے یونان کے کشتی حادثے میں ملوث، غفلت برتنے پر ایف آئی اے کے دو افسران کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ کارروائی شاید وزیر اعظم ہاؤس میں یونان میں کشتی الٹنے کے حادثے پر ہونے والے اجلاس کے بعد ہوئی۔اس اجلاس میں شہباز شریف خواجہ آصف، محسن نقوی، احد خان چیمہ، عطاء اللہ تارڑ، طارق فاطمی، رانا احسان افضل کے علاوہ متعلقہ حکام نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اب تک انسانی سمگلنگ کے ایک سو چوہتر کیسز عدالتوں میں پیش کیے جا چکے ہیں ۔ سزا صرف چار ملزمان کو ہوئی ہے۔ اس بات کا کچھ علم نہیں کہ کتنے جیل میں ہیں اور کتنے ضمانت پر۔ وائس آف امریکہ کے مطابق تارکین وطن کی تین کشتیاں سمندر میں غرق ہوئیں تینوں میں پاکستانی موجود تھے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکٹھی تین کشتیاں مختلف مقامات پر کیسے الٹ سکتی ہیں ۔یعنی انہیں الٹایا گیا ہے ۔ بھرے ہوئے پیٹ والوں کو خالی پیٹ لوگوں کا اپنے علاقوں میں آنا قطعاً پسند نہیں ۔
بات شروع کی تھی پاسپورٹس سے کہ پاسپورٹ بنانے کی رفتار کم کر دی گئی ہے۔میں نے اس کی وجوہات پر غور کیا تو خیال آیا کہ پچھلے دو تین سال سے پاکستان سے باہر جانے والوں کی تعداد میں دو تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ دو ہزار اکیس میں انیس لاکھ لوگ پاکستان سے باہر گئے ۔دو ہزار بائیس میں اکیس لاکھ لوگوں نے بیرون ِ سفر کیا۔ دو ہزار تیئس میں ان کی تعداد پچیس لاکھ تھی ۔اس سال تعداد پچھلے برس سے بھی زیادہ ہے ۔ممکن ہے اسی تعداد کو کم کرنے کیلئے حکومت نے یہ کام کیا ہو مگر وہ لوگ جو یورپ یا امریکہ وغیرہ کا ویزا حاصل کر سکتے ہیں ان کیلئے پاسپورٹس کا حصول کوئی بڑی بات نہیں ۔اصل میں تو یہ چھ لاکھ لو گ وہ ہیں جنہوں نے چھوٹی موٹی مزدوری کیلئے گلف وغیرہ کی ریاستوں میں جانا ہوتا ہے ۔ان کے پاسپورٹس روکنے کی بجائے انہیں بھیجنے کیلئے تو حکومت کو خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں ۔سوائے اظہار ِ حیرت کے اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ ہمیں ملک سے باہر جانے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بالکل پریشان نہیں ہونا چاہئے ۔یہ دیکھنا کہ اس دوران ملک میں کتنے غیر ملکی آئے ۔ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار سترہ میں ساڑھے سترہ لاکھ غیر ملکی پاکستان آئے ۔دو ہزار اٹھارہ میں ان کی تعدادبیس لاکھ ہو گئی ۔دو ہزار انیس میں تیئس لاکھ دو ہزار بیس میں کو رونا کے سبب کم ہو کر تیرہ لاکھ رہ گئی۔ دو ہزار اکیس میں یہ تعداد پھر بائیس لاکھ ہو گئی اور دو ہزار بائیس میں پینتیس لاکھ تک پہنچ گئی، دو ہزار تیئس میں 38لاکھ ہوئی۔ یعنی آنے والے جانے والوں سے کہیں زیادہ ہیں ۔ان غیر ملکیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دوہری شہریت کے حامل ہیں یعنی پاکستانی بھی ہیں۔
میرے خیال میں پاکستان میں بیرون ملک آنے اور جانےوالوں کی تعداد میں اضافہ مختلف فوائد لے کر آتا ہے۔ معاشی ترقی، ثقافتی تبادلہ، تعلیمی فوائد، سماجی تعلقات اور سیاسی اثرات وہ اہم پہلو ہیں جن پر اس اضافے کا اثر پڑتا ہے۔ حکومت ِ پاکستان کو اس پر پوری توجہ دینا چاہئے ۔یہی وہ عمل ہے جس سے عالمی سطح پر تعلقات میں بہتری آئے گی ،معیشت مستحکم ہو گی۔ سرحدوں کے زخم کچھ کم ہونگے۔