• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم لوگ بڑے شہروں کے رہنے والے بہت خراب ہیں۔ اپنے دوستوں کے چکروں سے نکلتے ہی نہیں ایک دوسرے پہ تبصرہ، تعریف اور تجزیہ کئے جاتے ہیں اس وقت میرے ہاتھ میں مختارصدیقی کے فن اور شاعری کا تجزیہ کرتی ہوئی ڈاکٹر صابرہ شاہین کی کتاب ہے۔ آپ ڈیرہ غازی خان سے کوئی 25میل دور قصباتی کالج کی پرنسپل ہیں یہ کتاب دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا ۔ مقالہ بھی اس شخصیت سے متعلق ہے جو بہت کم لوگوں سے ملتا تھا مگر پڑھتا بہت تھا ریڈیو پر ملازمت کے باعث، موسیقی سے بے پناہ رغبت ، داتا صاحب سے بے پناہ وارفتگی کے باعث ، روحانیت میں جذب، زبانوں کو سیکھنے اورسمجھنے کے جنون کے باعث اردو،فارسی عربی پرمکمل عبور، کم سے کم دوست رکھنے کے باوجود ،برادری حلقے میں عزت سے لیا جانے والا نام یاد داشت ایسی کہ کوئی لفظ ، کوئی مجموعہ ، کوئی محاورہ پوچھ لیں۔ سند کے ساتھ جواب حاضر ، شعر پوچھنا ہو تو وہ فوراً ’’سن لو۔ شاعر کا نام پوچھنا ہوتو مجال ہے غلط ہو یہ تھے مختار صدیقی صاحب جن کا نہ صرف شاعرانہ، نظمیانہ، تحقیق اور نہ ہی تعلق سے تجزیہ صابرہ شاہین نے اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ کتاب پڑھنے کا لطف آگیا ہے۔
دوسری کتاب بھی اتفاقاً ڈیرہ غازی خان کی کہانی لکھنے والی محترمہ نیررانی شفقت کی کہانیاں ہیں، رانی ہرچند ہیپاٹائٹس سی کی مریض ہیں مگر حوصلہ اور جذبے کے ساتھ ایسی تحریریں پیش کرتی ہیں جو کہ صدارتی انعام یافتہ ہیں تازہ تصنیف ، شفق رنگ کہانیاں، بقول ڈاکٹر انوار احمد وہ نہ صرف مؤثر نثر لکھنے پرقادر ہیں بلکہ عورت، مرد ، گھراور سماج کے حوالے سے پیچیدہ ہوتے تعلقات کے گرد کہانی بننے کا سلیقہ بھی رکھتی ہیں۔ یہ کہانیاں تخلیق کے جوہر کے امکانات کو ظاہر کرتی ہیں۔ نیر رانی نے اپنی کہانیوں کے ذریعہ پیغام دیا ہے کہ سازشی لوگ آخر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ان کی کہانیوں میں موجودہ سماجی زندگی میں پیدا ہونے والے غیرانسانی رویوں میں خاندانی نظام میں ہونے والی توڑ پھوڑ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔
نصیراحمد ناصر، بہت اچھے مگر زود نویس شاعر ہیں، وہ نظم و غزل اور نثری نظم رکھنے پرخوبصورت عبور رکھتے ہیں۔ اب تو انکی شاعری کا انگریزی ترجمہ بھی سامنے آچکا ہے ، ہمارے معاشرے کے تضادات کو وہ سامنے لاتے ہیں ۔ بالکل اسی انداز میں علی محمد قریشی، نظمیں لکھتے ہیں مگر ان کی لغت میں رومانویت ہوتی ہے ۔سال بھر پہلے وہ ایک ادبی مجلہ بھی نکالتےتھے، ذاتی مصروفیات اور کچھ ذہنی تنائو کے باعث، یہ کام بھی تاخیر کا شکار ہے یہ دونوں اسلام آباد میںرہتے ہیں بالکل حمید شاہد کی طرح کہ انہوں نے ایک نیا کام کیا ہے منٹو کے حوالے سے جو کچھ نیٹ پر ان کے مذاکرات ہوتے رہے ان کو مجلہ کی شکل میں پیش کیا ہے یہ انوکھا تجربہ ہے۔ایک تجربہ حمزہ حسن شیخ نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے امرتا پریتم کی نظموں کو انگریزی میں پیش کیا ہے یہ ایک نوجوان سے پنجابی نظم اوروہ بھی امرتا پریتم کی ان کا ترجمہ بہت مشکل کام تھا سادہ، سلیس انگریزی میں حمزہ نے بہت اچھا ترجمہ کیا ہے ویسے تو بہت لوگوں نے امرتا پریتم کے تراجم کئے ہیںمگر یہ ترجمہ سب سے مختلف ہے۔ جلیانوالہ باغ کی دیواروں پرانگریزوں کی گولیوں کے نشانات کو امرتا نے جس کرب کے ساتھ بیان کیا ہے حمزہ نے اس تاثر کو کم نہیں ہونے دیا ہے۔مولانا ظفرعلی خان ٹرسٹ نے نہ صرف ان کا کلام بلکہ ادارے اور زمیندار کے تراشے بھی کتابی شکل میں شائع کئے ہیں بڑا کرم کہ مجھے پڑھنے کے لئے اور لطف اندوز ہونے کے لئے بھیجی ہیں یہ وہ شاعر تھے کہ جس دن ان کی نظم صفحہ اول پہ شائع ہوتی تھی۔ اس دن ایک پیسے والا اخبارایک روپے میں فروخت ہوا کرتا تھا معلوم نہیں ابلاغیات کے شعبے میں کسی نے مولانا ظفر علی خان چیئر قائم کی ہے۔یا نہیں اگرنہیں توابھی بھی کچھ نہیں گیا۔بہت کم لوگوں نے اقبال حسن خان کا بطور ناول نگار نام سنا ہوگا یہ ناول شروع سے آخر تک ایک طرح سے پاکستان کے قیام اوراس پر نازل عتاب کی داستان ہے جس میں کامریڈ بھی ہے کیپٹن بھی اوروہ کوٹھا بھی جو ایک زمانے تک لاہور کی بنیادی روایت کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ معلوم نہیں یہ مجھے ہی محسوس ہو رہاہے یا واقعی دوسرے پڑھنے والے بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بیشتر ناول نگاروں کا کینوس قیام پاکستان سے لیکرابتلائے پاکستان کے بوسیدہ اوراق تک پھیلا ہوتا ہے۔ غلط بھی نہیں جو کچھ ہمارے سیاست دانوں نے ہم سے سلوک کیا ہے یہ کہہ کر کہ ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں اورعوام پر ہی اپنے قدموں کے بلڈوزر چلاتے ہیں آج تک یہی ہوا ہے غلام باغ ہوکر مستنصر کے لکھے ہوئے ناول یا پھرانتظار حسین کی تحریریں، ہمارے ملک کے آشوب کو بیان کرتی ہیں اقبال حسن خان بھی اسی قبیلے میں شامل ہوگئے ہیں۔اب آخر میں ایک بہت بڑی برصغیر کی ناول نگار کر شنا سوپتی کے ناول دل ودانش کا حوالہ آپکوبھی اچھا لگے گا۔ اس ناول میں بھی وہی تذکرہ ہے بلکہ دلی کا وہ احوال جسے شاہ جہاں آباد کے نام سے منسوب کیاگیا تھا۔یہ ناول ایک ہندوگھرانے پر مرکوز ہے مگر دکھاتا ہے کہ تقسیم کے بعد کا نقشہ بھی کرشنا سویتی نے اسی اس نا سٹیلجیا کے تحت لکھا ہے جو انتظارحسین کے یہاں ہمیں نظرآتاہے۔ کرشنا سویتی نے اپنی منفرد شناخت قائم رکھی ہے۔ کہ وہ ہندی کی سب سے معتبر لکھنے والی ہیں۔ ان کی خودنوشت ’’زندگی نامہ‘‘ پہ امرتا پریتم کے ساتھ مقدمہ بازی بھی رہی کہ دونوں نے اپنی خود نوشت کایہی نام رکھ لیا تھا۔ یہاں ان کی ہندی سے اردو میں ترجمہ کرنے والے کا نام اورتعارف کرانا بھی ضروری ہے عبدالمغنی جوکہ بلراج حسینا کے ساتھ ترجمے کاکام کرتے تھے۔ادھراُدھر سے بھی یہی کام کیا کرتے تھے مگرناول کا ترجمہ، تخلیق کے طورپر کیاہے نمونے کے طور پر دیکھئے’’ جمنا کے کنارے اس شہر کی ہستی نے صدیوں تک جان کس کس کو اپنی طرف بلایا اور کھینچا اوراولاد سمجھ کر اپنی مٹی اور پانی سے سینچا، خدا کرے دلی کبھی ویران نہ ہو ۔
تازہ ترین