جب ہم خاموش ہوتے ہیں، تو دراصل ہمارے اندر ایک درد کراہتا ہے ، ماضی کی آوازیں سُنائی دیتی ہیں… اُن لوگوں کی آوازیں، جن سے ہم محبّت کرتے تھے۔ اُن کی ہنسی، اُن کی پکار، اُن کی جھلک ہمارے سامنے آتی ہے۔ ہم اپنی خاموشی میں اُن کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں اس دُنیا سے نکالے۔
ہم بات نہیں کرنا چاہتے، کیوں کہ ہماری ہر بات میں ایک آہ، ایک چیخ چُھپی ہوتی ہے، باہر نکلنے سے انکاری ہوتی ہے اور ہمارے سینے ہی میں کہیں اٹکی رہتی ہے۔ ہمیں اپنی خاموشی میں اپنے بچھڑ جانے والوں کا پیار محسوس ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ خاموشی ایک حکمت، ایک فصاحت ہے، جو عموماً دوسروں کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ لیکن حقیقتاً ہم کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہتے، کیوں کہ آج ہم نے اظہار کا فن کھو دیا ہے۔ الفاظ ہمارے لبوں پر آکر رُک سے جاتے ہیں، جملے حلق میں اٹک جاتے ہیں۔ آج ہر چیز ہماری رُوح میں منجمد ہو گئی ہے۔
ہم اس لیے خاموش ہیں، کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ دل کی بات کہنا بے معنی ہو چُکا ہے۔ ہماری رُوحیں تھک چُکی ہیں۔ ہم موت اور درد کا لمس محسوس کر چُکے ہیں۔ سو، ہم نے غم اور یادوں کی چادر اوڑھ لی ہے۔ (بلقیس متین، کراچی)