کہنے والےکہتے ہیں کہ ٹیررسٹوں یعنی دہشت گردوں نے پوری قوم کا ناک میں دم کررکھا ہے یعنی ناک میں دم ہونا محاورہ ہے اور یہ محاورہ قابل توجہ ہے آپ گردن جھکا کر اس محاورے کے بارے میں پہروں سوچئے تھک جائیں تو چھوٹا سا بریک لے لیں ۔بریک سے واپس آنے کے بعد پھر سے سوچئے ۔ ایک مفلس اور مقروض شخص کے چہرے پر ایک عدد ناک دکھائی دیتی ہے مگر مفلس اور مقروض ہوجانے کے بعد ہمارے چہرے سے ناک غائب ہوجاتی ہے ۔ اگر کبھی مفلس اور مقروض کے چہرے پر ناک جیسی کوئی چیز دکھائی دے تو وہ نشاندہی کرتی ہے اس بات کی کہ مفلس اور مقروض شخص کسی زمانے میں خوشحال اور فیاض تھا ۔ مکمل طور پر مفلس ہوجانے کے بعد مقروض شخص عزت نفس کے ساتھ ساتھ اپنی ناک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ دہشت گردوں نے قوم کا ناک میں دم کررکھا ہے یا کہ قوم کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔ یا پھر یہ کہ آئے دن ہمارے یہاں اس قدر دہشت گرد کارروائیاں اور دھماکے ہوتے رہتے ہیں کہ اب ہمیں دھماکوں کی دہشت ناک آواز سننے کی عادت سی پڑ گئی ہے دہشت گردوں کی آمد اور ان کی کارروائیوں کا مزہ چکھنے کا ہمیں چسکا سالگ گیا ہے ۔ انیس سو سینتالیس کے بعد جنم لینے والے محب وطن سمجھتے ہیں یا پھر یہ کہ باور کرتے ہیں کہ دہشت گرد دور حاضر کی پیداوار ہیں ۔ پاکستان بننے کے ابتدائی برسوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ تب پاکستان میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی رہتی تھیں ۔ درختوں کی ٹہنیوں سے اشرفیاں لٹکتی رہتی تھیں سنی سنائی بات میں وزن ہے یوں سمجھ لیجئے کہ یہ فقیروں کی دیکھی بھالی بات ہے ۔ ہم فقیروں نے خاص طور پر کراچی میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہتے ہوئے اور درختوں کی ٹہنیوں سے لٹکتی ہوئی اشرفیاں دیکھی تھیں۔ سچ جانیے کہ فقیروں نے ڈالر بھی ٹہنیوں سے لٹکتے ہوئے دیکھے تھے ۔ اس بات کی تصدیق وہ باپ دادا بھی کرسکتے ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا تھا ۔ اس بات کی تصدیق انکے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی کرسکتے ہیں ۔ وہ مقدس کتابوں پر ہاتھ رکھ کر بھی تصدیق کرسکتے ہیں ۔
تب کراچی میں دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ مت سوچئے کہ تب کراچی میں لوگ چھینا جھپٹی اور مارا ماری نہیں کرتے تھے۔ ان دونوں کارناموں میں شہر کراچی خود کفیل تھا۔ ٹھیک ٹھاک قتل و غارت گری کے واقعات پابندی سے ہوتے رہتے تھے۔لوگ ان کارناموں کو کسی اور نام سے یاد کرتے تھے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس زمانےمیں اصطلاح دہشت گرد اور دہشت گردی ایجاد نہیں ہوئے تھے ۔ کام اسی نوعیت کے ہوتے تھے جو آج کل کے دہشت گرد سرانجام دیتے ہیں مگر تباہ کاری مچانے والوں کے کارنامے کسی دوسرے نام سے پکارے جاتے تھے۔ پاکستانی تاریخ کا اولین مکروہ واقعہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ اس واقعہ نے پاکستانی قوم کو سکتہ میں ڈال دیا تھا ۔ اس گستاخانہ واقعہ کے بعد قائد اعظم خاموش ہوگئے تھے۔ قائد اعظم کی قوم کے نام پہلی نشرشدہ تقریر کسی نابکار نے ایڈٹ کرنے کے بعد اشاعت کیلئے اخبارات کو بھجوادی تھی۔ قائد اعظم بڑے ہی رعب تعب والے لیڈر تھے۔کوئی شخص ان سے گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس گستاخی کے بعد قائد اعظم کو پھر کسی نے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ گستاخ نابکار شخص کون تھا؟ کوئی نہیں جانتا ۔ سنا ہے کہ اس گستاخی کے بارے میں کبھی چھان بین ہونے نہیں دی گئی تھی۔ نشر شدہ تقریر میں قائداعظم نے دنیا بھر کیلئے حقیقی پاکستان کا نقشہ کھینچا تھا ۔ دنیا کو پاکستان کی شکل صورت دکھائی تھی ۔ قائد اعظم نے دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ پاکستان انتہا پسندوں کا ملک نہیں ہوگا ۔ کسی ایک گروہ کی پاکستان پر اجارہ داری نہیں ہوگی۔
قائد اعظم کے حوالے سے ایک دوسرے اور سنگین جرم پر آج تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ تشویش ناک حالت میں قائد اعظم کو کوئٹہ سے کراچی لایا گیا تھا تب کس کے حکم پر قائد اعظم کو ماڑی پور ائیر بیس سے گورنر ہاؤس تک لے جانے کے لئے ٹوٹی پھوٹی پھٹیچر ایمبولینس دی گئی تھی؟ آج تک اس راز پر پردہ پڑا ہوا ہے ۔ ماڑی پور روڈ پر ایک بہت بڑے مہاجر کیمپ کے باہر ڈرائیور نے انجن کی خرابی کا بہانہ بنا کر ایمبولینس روک لی تھی۔ گھنٹوں قائداعظم چلچلاتی دھوپ میں بغیر اے سی کے پھٹیچر ایمبولینس میں بے یارو مددگار پڑے ہوئے تھے ۔ اسی رات قائد اعظم دس بج کر بیس منٹ پر اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے۔ اس تاریخی سانحہ پر آج تک پردہ پڑا ہوا ہے ۔ کس کے کہنے پر معززین کیساتھ،عین وزیراعظم لیاقت علی خان کے سامنے سعید یاسید اکبر کو بٹھایا گیا تھا؟ وزیراعظم لیاقت علی خان تشریف لائے، روسٹرم پر پہنچے، کچھ کہنا چاہتے تھے کہ سید اکبر نے ریوالور نکال کر ان پر گولیاں چلادیں۔ اسی لمحہ سید اکبر کے پیچھے بیٹھے ہوئے نامعلوم شخص نے سید اکبر کو ایک گولی سے ڈھیر کردیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس سازش کے پیچھے کون تھا۔ گولیاں چلانےوالے دونوں دہشت گرد کون تھے ۔ مگر تب، ستر برس پہلے گھناؤنی سازش کرنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہا جاتا تھا ۔ مگر آج کل ایسے کارنامے کرنے والوں کو تخریب کار اور دہشت گرد کہا جاتا ہے۔