• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ماہِ دسمبر ہے اور آج سے سترہ برس قبل2007میں اسی ماہ دسمبر کی27 تاریخ کو وطن عزیز کے پُررونق،اہم اور قدیم شہر راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں پاکستان کی بیٹی،دُختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کے ایک سفاکانہ حملے میں شہید ہو گئی تھیں۔ بلاشبہ انسان مرنے کیلئے ہی پیدا ہوتا ہے لیکن شاعرِ انقلاب فیض احمد فیض نے کہا تھا۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا

وہ شان سلامت رہتی ہے

محترمہ بے نظیربھٹو نے جس دھج ، جرات،بہادری او ر حوصلے سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا یقیناً اوربلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے جینے کے انداز کی ماننداُن کی شہادت کا انداز بھی اُن کے نام کی طرح بے مثل اور بے نظیر ہی ٹھہرا۔سیدنا علی المرتضیٰؓ کا قول ہے’’زندگی اس طرح بسر کروجب تک زندہ رہو لوگ تمہارے ملنے کیلئے بے تاب رہیں اور جب اس فانی دنیا کو چھوڑ کر جاؤتو لوگ تمھیں بے تابی سے یاد کریں‘‘۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی باصلاحیت اور بہادر بیٹی بے نظیر بھٹوسیدنا علی المرتضیٰؓ کے اس قول پر پورا اترتی ہیں۔ وہ زندہ رہیں تو پاکستانی عوام اُن کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہزار ہا میل کا سفرطے کر کے اُن کی جلسہ گاہوں تک پہنچتے رہے۔ انھوں نے شہادت کو قبول کیا تو اُن کی شہادت کے بعد پاکستان میں بسنے والے لوگوں میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں جس کا دل اِس واقعہ کو یاد کر کے افسردہ نہ ہو تا ہو اور جس کی آنکھ اس الم ناک واقعہ پر اشک بار نہ ہو ئی ہو۔ ماسوائے اُن وطن دشمن افراد کے جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا یا جو لوگ اس قبیح فعل کو انجام دینے کی سازش میں شریک تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد بھٹو خاندان پے درپے سانحات کی زد میں رہا ،المناک حادثات سے دوچار ہوا شاہ نواز بھٹو کو فرانس میں پر اسرار موت سے دوچار ہونا پڑا میر مرتضٰی بھٹو کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں گولیاں مار کر کراچی کی ایک شاہراہ پر ساتھیوں سمیت شہید کردیا گیا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو عین اس جگہ پر جہاں قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا، ایک انتخابی جلسہ کے بعد شہید کر دیا گیا۔ محتر مہ بے نظیر بھٹو لا زوال قائدانہ صلاحیتوں کی مالک تھیں۔وہ عمر بھر آمریت کو للکارتی رہیں۔ اُن کا طرز سیاست بھی ایسا تھا جس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔ وہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر گھنٹوں اپنے عوام سے مخاطب رہتیں اور جلسہ گاہ میں موجود ہر شخص اُن کی ہر بات کو تہہ دل سے تسلیم کرتا۔وہ احترام اور عقیدت سے جب اپنے والد کا ذکر کرتیں تو فضا’’جئے بھٹو‘‘کے فلک شگاف نعروں سے گونجنے لگتی اور ہر شخص کی زبان سے بے ساختہ یہ جملے ادا ہونے لگتے’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘۔محترمہ آٹھ سالہ جلا وطنی کے بعد جب 18اکتوبر 2007کوروشنیوں کے شہر کراچی پہنچیں تو لاکھوں کی تعدا دمیں اُن کے چاہنے والوں نے اُن کافقیدالمثال استقبال کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ اکتوبر کو محتر مہ بے نظیر بھٹوکا استقبال کرنے والوں کی تعداد 25سے 30لاکھ کے قریب تھی۔ پاکستان آمد سے قبل ابو ظہبی میں انھوں نے ایک پرُ ہجوم پریس کانفرنس میں اپنے قتل کئے جانے کی سازشوں کے پیش ِ نظر طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے کہا کہ’’مجھے یقین ہے وہ لوگ مجھے قتل نہیں کریں گے اس لیے کہ دینِ اسلام عورت کے قتل سے منع کر تا ہے‘‘۔اُن کی وطن آمد کے پہلے ہی دن اُ ن کی گاڑی کے قریب ایک خطر نا ک بم دھماکہ ہو ا جس میں 150کے قریب افراد شہید ہو ئے اور محترمہ اس جان لیوا حملے میں بال بال بچیں ۔اس حملہ کے بعد اُنھوں نے جنرل پرویز مشرف کو خط لکھا اور واقعہ کی شفاف تحقیقات پر زور دیااور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیاکہ سانحہ کے ذمہ داران کونہ صرف منظر عام پر لایا جائے بلکہ قرار واقعی سز ا بھی دی جائے۔اگر18اکتوبر کو پیش آنے والے ’’سانحہ کارساز‘‘کی تحقیقات وسیع پیمانےپر اور نیک نیتی سے کرائی جاتیں تو’’سانحہ لیاقت باغ‘‘جیسے کرب ناک المیے کا وقوع پذیر ہونا نا ممکن بنایا جا سکتا تھا۔محتر مہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے بھٹو خاندان کی پاکستان،جمہوریت اور پاکستانی عوام کیلئے دی جانے والی قربانیوں کی لازوال داستان کو امر کردیا۔محتر مہ بے نظیر بھٹو ایسی باکمال سیاسی شخصیت تھیں کہ جنہیں عالمی سیاست کے پیچ خم پر بھی دسترس حاصل تھی۔انھوں نے ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کیا اور اس کے حصول میں کامیاب رہیں اُن کے اس فانی دنیاسے رُخصت ہو جانے کے بعد سیاسی خلاکو پُر نہیں کیا جا سکا لیکن وہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انھیں یہ علم تھا کہ انھیں عوامی اور جمہوری جدوجہد کے راستے سے ہٹانے کیلئے ملک دُشمن عناصر نے مکمل طور پر منصوبہ بندی کر لی ہے اور وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ کسی بھی وقت انھیں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نشانہ بنا یا جا سکتا ہے مگر انھوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتی ہیں،موت اللہ کے حکم سے آنی ہے اور جو رات قبر کیلئے متعین ہے وہ قبر کے باہر نہیں آ سکتی۔ اس لیے سانحہ کارساز کے بعد بھی انھوں نے بڑھ چڑھ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔وہ زندہ رہیں تو بھی بے مثل اور بے نظیر بن کر اور جداہوئیں تو تب بھی بے مثل اور بے نظیر ٹھہریں۔ وہ حیات تھیں تو تب بھی اُن کے پارٹی ورکر سر اُٹھا کر جیتے تھے،وہ شہید ہو کر مزید اپنے ورکرز کا سر فخر سے بلند کرگئیں۔

تازہ ترین