• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کا شکر گزار ہوں اور سفیر ایران رضا امیری، سینیٹر مشاہد حسین، صدر انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز ایمبسیڈر جوہر سلیم، پروگرام ماڈریٹر فراز نقوی اورسیمینار میں شریک تمام معزز مہمانان گرامی کو سلام پیش کرتا ہوں ۔اہم موضوع پر مجھے آپ صاحبان دانش کے سامنے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا ’’ایران کا عالمی نقطہ نظر اور پاک ایران تعلقات کیلئے بہتر مواقع‘‘ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر نہایت باریک بینی سے دونوں ممالک کے معاملہ فہم اور معاملات سے متعلق افراد کو مطالعہ کرنا چاہئے۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو ایران وہ پہلا ملک تھا کہ جس نے پاکستان کو تسلیم کیا اور جب اسلامی ممالک کی تاریخ میں بادشاہت کے خلاف سب سے بڑا عوامی انقلاب ایرانی عوام نے برپا کیا تو اس کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ حالانکہ امریکہ انقلاب کا سخت مخالف تھا۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ پاکستان کبھی ایران کو کسی دوسرے کی آنکھ سے نہیں دیکھتا بلکہ اپنے دیرینہ مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے۔ جب بھی کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی تشکیل دی جاتی ہے تو اس میں چند امور کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور اس سے پاکستان ہو یا ایران دونوں ممالک کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ آج کے دور میں عالمی ماحول اور اسکے ممکنہ اثرات کو زیر بحث لایا جاتا ہے، دونوں ممالک کی باہمی ضروریات کا تعین کیا جاتا ہے اور دونوں ممالک میں جاری داخلی سیاسی حرکیات، معاشی کھلاڑیوں، سیاسی ماحول، مختلف لسانی، علاقائی اور مذہبی گروہوں کے اس بارے میں تصورات پیش نظر ہوتے ہیں جو باہمی تعلقات کو بہتر بنانے یا بگاڑنے میں کوئی بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ایران اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو عالمی ماحول کے تناظر میں اگر پرکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ امریکہ سے ایران کے تعلقات انقلاب کے بعد سے مسلسل خراب چلے آ رہے ہیں اور یہ اس حد تک خراب ہیں کہ ابھی حال ہی میں امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ امریکہ ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے ایران کی موجودہ حکومت یا نظام کو ختم کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ مگر پاکستان نے باہمی تعلقات پر کسی دوسرے کو اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کو ایران کے تناظر میں ایک کھلی کھڑکی بھی خیال کرتا ہوں کیونکہ پاکستان نے امریکا میں بہت دفعہ ایران کے سفیر کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔ کونڈو لیزا رائس کے دور میں پاکستان نے ایران کے مؤقف سے امریکیوں کو آگاہ کیا بلکہ میں یوں کہوں تو زیادہ درست ہو گا کہ ان کو سمجھایا۔ پاکستان موجودہ اقتصادی مشکلات کے باوجود امتیازی حیثیت کا حامل ہے اور اگر اب بھی اس کو ایران کا اس حوالے سے اعتماد حاصل ہو تو وہ بہت مثبت کردار ادا کرتے ہوئے مثبت نتائج کے حصول کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔

پاکستان کو روز اول سے انڈیا کی جانب سے فوجی خطرہ ہے اور جب کبھی بھی 16دسمبر کی تاریخ آتی ہے تو اس خطرے کی حقیقت بھی سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ ایران اور انڈیا کے باہمی تعلقات اب بہت بہترہیں مگر مسئلہ کشمیر پر ایران پاکستانی مؤقف کا حامی ہے اور ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنائی کشمیر کا ذکر کر چکے ہیں جو کہ اس حوالے سے ایران کے احساسات کو واضح کرتا ہے اور یہ پالیسی آیت اللہ خمینی کی دی ہوئی تھی جب انہوں نے 1965 میں نجف میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ہو تو ’’یہودی فلسطین کا لالچ نہیں کرسکیں گے، ہندو کشمیر کی حرص نہیں کرسکیں گے۔‘‘ اس وجہ سے انڈیا چاہے چاہ بہار میں سرمایہ کاری کرے یا ایران میں دیگر امور پر آگے نظر آئے پاکستان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر انڈیا کے معاشی و تجارتی مفادات ایران کے ساتھ وابستہ ہوتے چلے جائیں تو ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس ایک دوست ملک ایران موجود ہو گا جو انڈیا کو کم از کم یہ سمجھانے کی ضرور کوشش کر سکتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک پاکستان کے برادر ہیں۔ ان دونوں کے گہرے مذہبی اثرات پاکستان کے مختلف مذہبی عناصر پر موجود ہیں۔ ابھی جو کچھ شام میں ہوا ہے اسکے بھی مختلف اثرات عرب ممالک، ترکی اور ایران کے باہمی تعلقات پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ مگر اس دوران ہی جب سعودی عرب کے ولی عہد نے ایران کی خود مختاری اور سرحدوں کا احترام کرنے کا اسرائیل کے مقابلے میں بیان دیا تو ایک امید جاگی کہ ان دونوں اہم ترین مسلمان ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہو سکتی ہے۔

افغانستان کے حالات گزشتہ نصف صدی سے پورے خطے کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں اور وہاں پر کوئی بھی حکومت قائم ہو جائے اس کے شکوے شکایات کسی نا کسی ہمسایہ ملک سے موجود ہی رہتے ہیں۔ اب جب افغان طالبان بر سر حکومت آئے تو اس دوران ایران کے ان سے تعلقات بھی بہتر ہوئے اور اس بہتری کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے تعلقات پر افغان امور کی وجہ سے اختلاف رائے کے جو بد اثرات تھے وہ چھٹنے لگے۔ ان تمام کے ساتھ ساتھ فلسطين کا مسئلہ بھی ایسا ہے کہ جو صرف ایران کا مسئلہ نہیں ہے ، صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر اس انسان کا مسئلہ ہے کہ جس میں انسانیت موجود ہے۔ یہ بہت خوش قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان اور ایران کا غزہ کے حالیہ واقعات پر ایک سا مؤقف ہے اور پاکستان ایران کی خود مختاری اور سرحدوں کے احترام پر یقین رکھتا ہے۔ ایرانی سفیر رضا امیری نے اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کی غزہ میں جاری نسل کشی پر روشنی ڈالی اور ایران کی پوزیشن واضح کی کہ ایران کسی طور بھی فلسطين کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔

تازہ ترین