قائد اعظم نے تقسیم بر عظیم سے قبل اور بعد میں بھی بار بار زور دے کر کہا کہ ’’میں جمہوری اسلامی اسٹیٹ کو مانتا ہوں جو اسلامک سوشل جسٹس پر مبنی ہو۔‘‘ یہی ان کے ذہن و فکر کی اساس ہے اور اسے بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حکومتوں کے جو مختلف نظام دنیا میں رائج ہیں ان میں سے کسی ایک کی نقل کرلینے کارجحان ان میں بالکل نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس کی طرف مائل تھے کہ کسی ایک کو لے کر اسے مشرف بہ اسلام کرلیا جائے ۔
قائد اعظم نے چاٹگام کے جلسے میں 23؍ مارچ 48ء کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ میرے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کی اساس سوشل جسٹس اور اسلامی سوشلزم پر رکھی جائے۔ کوئی دوسرے ازموں پر نہیں، جس میں انسانی مساوات اور اخوت کی تاکید ہے اسی طرح جب آپ کہتے ہیں کہ تمام لوگوں کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں تو میرے خیالات کی ہم نوائی کرتے ہیں۔
یہ تقریر شہریوں کے اس سپاس نامے کے جواب میں ہوئی تھی جس میں پہلی بار اسلامی سوشلزم کا لفظ سپاسنامہ پیش کرنے والے نے استعمال کیا تھا۔ قائد اعظم نے خود اس اصطلاح کو استعمال ہی نہیں کیا وہ ہمیشہ اسلامی سوشل جسٹس کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ ’’ کوئی دوسرے ازموں پر نہیں ‘‘ کا جملہ جو قائد اعظم کی تقریر میں موجود ہے اسے اب تک حذف کر کے پیش کیا جاتا رہا ہے۔
قائد اعظم کی یہ تقریر حکومت پاکستان نے 1960ء میں شائع کی جس میں یہ جملہ حذف ہوا اور پھر 1190ءمیں حکومت پاکستان نے یہ تقریر شائع کی تو اس میں بھی یہ جملہ حذف کیا گیا۔ قائد اعظم نے اسلام کے مقابلے پر ہر ازم کو واضح طور پر مسترد کردیا تھا۔
چاٹگام تقریر کے تین ماہ بعد ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پریکم جولائی 1948ء کو بینک کے ادارۂ تحقیقات کو رجوع کرتے ہوئے فرمایا کہ، قوم کو اپنے معاشی مسائل کا فیصلہ اپنی مخصوص ضرورتوں کی روشنی میں کرنا چاہئے۔ قائد کے ذہن میں معاشی پالیسی کا کیا خاکہ تھا اس تقریر کے نکات سے اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ قائداعظم نے فرمایا:
’’میں پوری توجہ اور مستعدی سے دیکھتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلس تحقیق‘‘ بینکاری کے ایسے طریقے کس طرح نکالتی ہے جو معاشی و معاشرتی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق اور شایان شان ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کیلئے قریب قریب لایخل مسائل پیدا کر دیئے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تباہی سے جو دنیا کے سر پر منڈلارہی ہے اب کوئی معجزہ ہی بچائے تو بچا سکتا ہے۔
مغربی معاشی نظام آدمی آدمی کے درمیان عدل و انصاف کرنے اور بین لاقوامی میدان میں آویزش دور کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے بلکہ گزشتہ نصف صدی کےعرصے میں رونما ہونے والی دو عالمگیر جنگوں کی ذمہ داری بڑی حدتک اسی کے سر ہے۔ مغربی دنیا اپنی صنعتی قابلیت اور مشینی مہارتوں کی برتری کے باوجود آج انسانی تاریخ کے بدترین خلفشار میں مبتلا ہے۔
ہم نےاگر مغرب کے معاشی نظریہ و نظٓم کو اپنا یا تو مسرور ومطمئن، خوشحال قوم پیدا کرنے کا جو نصب العین ہمارا ہے اس میں مغربی نظام سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ ہمیں لازماً اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں اور خود اپنے طریقے سے بنانی ہوگی۔ دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی بیناد انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر رکھی گئی ہو۔
اس طرح ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنا مشن بھی پورا کریں گے اور انسانیت کو پیغام ا من وآتشی بھی دیں گے ،اب صر ف یہی ہے جو انسانیت کو تباہی سے بچا بھی سکتا ہے اور نوع انسانی کے فلاح وبہبود، مسرت و شادمانی، خوشحالی سرسبزی اور شادابی کا ضامن اور امین بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
قائد اعظم کی یہ تقریر آخری اور اہم ہے اس میں انہوں نے خاص طور سے معاشی نظام پر زور دیا ۔ سوشلزم یا اسلامی سوشلزم کی ذراسی بھی اہمیت ان کی نظر میں ہوتی تو یقینا اس اصطلاح کو پیش کرتے لیکن انہوں نے اس کا سرسری تذکرہ تک نہیں کیا۔
قائدِ اعظم نے تو قیامِ پاکستان سے تین سال قبل سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بے وقوف ہیں لیکن وہ غلط فہی میں مبتلا ہیں۔ یہ لوگ ہمیں احمق بنانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اپنی دست درازیوں سے باز آجاؤ! باز آجاؤ! میں کہتا ہوں کمیونسٹوں ! باز آجاؤ! اگر تم نے وہی کھیل پھر کھیلناچاہا یا حربہ استعمال کیا تو یقین کرو کہ یہ حربہ پلٹ کر تمہارے سر پر آ پڑے گا۔
مسلم لیگ کے چاند ستارے والے پرچم کے سوا کوئی پر چم ہم لوگوں کو نہیں چاہئے۔ ہم کسی لال یا پیلے پرچم کو نہیں چاہتے۔ اسلام ہمارا رہنما ہے اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے، اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ ہمیں کوئی ’’ازم‘‘ در کار نہیں۔ نہ سوشلزم، نہ کمیونزم اور نہ کوئی نیشنل سوشلزم۔‘‘
علّامہ اقبال نے بھی قائد اعظم سے صلاح مشورہ کیا تھا اور ایک خط میں لکھا کہ ’’ جواہر لال نہرو کے ملحدانہ سوشلزم سے بچنے کیلئے آزاد مملکت میں قانون شریعت نافذ کرنا مسلمانوں کیلئے اشد ضروری ہے۔ ‘‘
ایک مرتبہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ایک طالب علم نے قائداعظم سے ملاقات کی اور کہا کہ سر! میں کمیونزم کے نظریے کا شدت سے حامی ہوں، آپ اگر مجھے قائل کردیں تو میں مسلم لیگی بن کر آپ کے ساتھ ہوجاؤں گا۔ قائد اعظم بچوں سے عموماً از راہِ تفنن الٹا سوال کرتے تھے۔
انہوں نے فرمایا، مائی بوائے تم مجھے قائل کردو کہ میں کمیونسٹ ہوجاؤں اس میں تمارا زیادہ بھلا ہوگا۔ طالب علم پریشان ہوگیا تو قائد اعظم نے اسے سہارا دیا اور فرمایا اچھا کمیونزم کی تعریف بتاؤ۔ طالب علم نے کتابی تعریف کردی کہ کمیونزم دولت کی مساوی تقسیم کو کہتے ہیں۔ قائد اعظم نے فرمایا نہیں یہ تعریف درست نہیں۔
دراصل ’’کمیونزم غربت کی مساوی تقسیم کو کہتے ہیں۔‘‘ یہ 1945ء کی بات ہے آ ج جب ’’آہنی پردہ‘‘ ہٹا تو ہمیں اس اشتراکی سامراج میں چاروں طرف غربت ہی غربت نظر آرہی ہے۔ اس نظریہ کا سات دھائیوں ہی میں شیرازہ بکھر گیا۔ قائد اعظم کے مندرجہ ذیل اقوال سے ان کے نظریے اور نظام حکومت کی واضح تصویر سامنے آجائے گی۔
قائد اعظم نے 11؍اکتوبر 1947ء کو افسران حکومت پاکستان سے خطاب کیا اور فرمایا۔ ’’پاکستان کی تخلیق وسیلہ ہے مقصود کے حصول کا۔ یہ بذات خود مقصود نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری اپنی ایک اسٹیٹ ہو جس کے اندر ہم آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کرسکیں اور آزادی کی سانس لے سکیں اور اس کی نشوونما خود اپنی روشنی اور تہذیب کے مطابق کرسکیں جہاں اسلامک سوشل جسٹس (اسلامی عدل اجتماعی) کے اصول روبہ عمل لانے کی کھلی فضا ہو۔‘‘
قائداعظم نے 14؍فروری 1948ء کو سبی دربار کی تقریر میں فرمایا۔’’میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات ان سنہری قواعد و اعمال کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے چال چلن کو درست رکھنے کیلئے ہمارے عظیم المرتبت قانون ساز نے مرتب کئے ہیں، پیغمبر اسلامؐ نے عطا کئے ہیں، آیئے ہم لوگ اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی تصورات اور اصولوں پر استوار کریں ہمارے خدائے قادر مطلق نے ہمیں سکھایا ہے کہ مملکت کے تمام امور ہمارے فیصلے بحث و تمحیص اور مشاورت کی رہنمائی میں ہوں ۔‘‘
(رضوان احمد کی کتاب ’’ میرے قائد اعظم سے انتخاب)