منگل کو رات گئے آنے والی اطلاعات کے بموجب پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے افغانستان کے پکتیا صوبے میں چار ایسے مقامات پر بمباری کی جہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کیمپوں کے موجودگی بتائی جاتی ہے ۔ سیکورٹی حکام کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں متعد د مشتبہ دہشت گرد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ذرائع کے مطابق برنال ضلع کے مرگھا اور لامان علاقوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا جو شیر زماں عرف مخلص یار، کمانڈر ابوحمزہ، کمانڈر اختر محمد اور ٹی ٹی پی کے میڈیا بازو کے سربراہ عمر میڈیا کی کمین گاہ تھے۔ افغان طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے پاکستانی فورسز کی کارروائی کی تصدیق کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ مذکورہ حملوں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں میں بچے اور سویلین بھی شامل ہیں۔ پاکستانی مسلح افواج کو آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردّالفساد کی صورت میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں جو کامیابی حاصل ہوئی،اس کے بعد امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج کے انخلا اور عبوری افغان حکومت کے قیام سے یہ توقعات پیدا ہوئی تھیں کہ نئی کابل حکومت دوحہ معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی مگر عبوری کابل حکومت کی اس وعدے کی پاسداری میں ناکامی پاکستانی حدود میں دراندازی کا سلسلہ پھر سے شروع ہونے اور بڑھنے کی کیفیت سے عیاں ہے۔ یہ صورت حال متقاضی تھی کہ کابل حکومت کو جھنجھوڑنے اور کالعدم ٹی ٹی پی کو ہوش کے ناخن لینے پر متوجہ کرنے کے لئے کوئی سرجیکل کارروائی کی جائے۔ پاکستان اور افغانستان دوایسے برادر ممالک ہیں جن کے فیصلوں میں بردباری ان ممالک ہی نہیں پورے خطے کے امن اور ترقی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وزیراعظم شہباز شریف اس عزم کاواضح لفظوں میں اظہار کرچکے ہیں کہ دہشت گردی کا دوبارہ سرکچلنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وطن عزیز کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں اس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے سامنے آنے والے اعتراضات اور رکاوٹیں بھی نمایاں ہیں۔ اسلام آباد کا ایٹمی پروگرام بھارت کے جارحانہ انداز میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع کئے جانے کے بدترین اثرات سے خود کو بچانے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس پر جارحانہ حملوں کے اس سلسلے میں محتاط سی کمی آئی جو پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں حیدرآباد دکن ، جوناگڑھ ، منادور، مانگرول پر قبضے ،کشمیر میں فوجیں اتارنے اور ملک کے مشرقی بازو کو علیحدہ کرنے کی صورت میں نظر آئے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دفاعی اہمیت کا ایک حصہ اس کا میزائل پروگرام ہے۔ اسلام آباد کے دفاعی پروگرام کا اصل نکتہ بھارتی جارحیت کا سدباب کرنا ہے اسلئے میزائل پروگرام جنوبی ایشیا تک محدود ہے۔ مگر خدا جانے کیسے بعض امریکی حلقوں کو یہ گمان گزراکہ اس پروگرام سے امریکہ کوبھی خطرہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام جارحانہ نہیں ڈیٹرنس نوعیت کا ہے۔ اس ہفتے کے اہم واقعات میںسے ایک 25سویلین افراد کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائے جانے کا واقعہ ہےجسے یورپی یونین امریکہ اور برطانیہ میں انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کے بموجب فیصلے قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے حکم کی روشنی میں دیئے گئے جبکہ سزا پانے والے افراد کو اپیل سمیت ہر قسم کے حقوق حاصل ہونگے۔اس باب میں مغربی دارالحکومتوں کو صورتحال سے مطلع کرکے پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا جانا چاہئے ۔ یہ بات اس اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ بھارت اسلام آباد کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرنے اور غلط فہمی پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔