بلوچستان مُلک کا سب سے وسیع و عریض اور معدنی وسائل سے مالامال صوبہ ہونے کے باوجود بدقسمتی سے انتہائی پس ماندہ اور غریب ترین صوبہ ہے۔ ماضی میں مسلسل نظر انداز کیے جانے کے سبب یہاں کے عوام ترقی اور تعلیم سمیت ہر شعبے میں دوسرے صوبوں سے بہت پیچھے ہیں۔ 2024ء کی بات کی جائے ، توگزشتہ برس بھی یہاں کے عوام دہشت گردی اور شدید موسمیاتی چیلنجز سمیت متعدد مسائل کا شکار رہے۔ اس حوالے سے بیتے برس میں صوبے میں رونما ہونے والے چند اہم واقعات پر مبنی ایک اجمالی جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
2024ء کا آغاز سیاسی سرگرمیوں کے اعتبار سے قدرے تیزی سے ہوا۔ تاہم، 8فروری کو مُلک میں ہونے والے عام انتخابات اور حکومت سازی کے بعد بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات زیادہ تعداد میں رونما ہوئے۔ مختصراً 2024ء اہلِ بلوچستان کے لیے کسی خاص تبدیلی کا حامل سال نہ تھا، بلکہ سال بھرکے دوران امن وامان کی صورتِ حال خاصی مخدوش رہی۔ صوبے میں پہلے سے جاری بدامنی، شورش اور دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس دوران مختلف مقامات پر150بم دھماکے، دستی بموں کے 80اور25راکٹ حملے، بارودی سرنگ کے 30دھماکے اور پانچ خُودکش حملے ہوئے۔ ان میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خُودکش حملے سمیت گوادر پورٹ اتھارٹی، لسبیلہ میں سیکیوریٹی فورسز کے کیمپ ، تربت میں نیول بیس اور مچھ میں سیکیوریٹی فورسز پر اجتماعی خُودکش حملے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے پچیس سے زائد واقعات بھی رونما ہوئے۔
ان واقعات میں مجموعی طور پر فوج، ایف سی، پولیس اور لیویز اہل کاروں سمیت200سے زائد افراد شہید اور400زخمی ہوئے۔ جنوری کے دوسرے ہفتے میں بلیدہ تربت میں سیکیوریٹی فورسز کے قافلے پر حملے میں چار اہل کار جاں بحق ہوگئے۔ 29جنوری کو کالعدم تنظیم، بی ایل اے کے مسلح جنگجوؤں نے مچھ اور کول پور میں سیکیوریٹی فورسز پر سات خُودکش حملے کیے۔
مسلّح حملہ آوروں اور سیکیوریٹی فورسز کے درمیان لگاتار دو دن تک جھڑپیں جاری رہیں، جن میں چار اہل کاروں سمیت دس افراد شہید اور9حملہ آورہلاک ہوئے۔ فروری میں ہونے والے عام انتخابات بھی خوف کے ماحول میں منعقد ہوئے۔ انتخابی عمل کے دوران امیدواروں کے دفاتراور گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔
8فروری کو انتخابات کے دن بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر 18دھماکوں اور راکٹ حملوں میں 3افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے۔ 6فروری کو قلعہ سیف اللہ میں جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالواسع اور خانوزئی میں آزاد امیدوار کے انتخابی دفاتر پر بم دھماکوں میں 33 افراد جاں بحق اور 50زخمی ہوئے۔8مئی کو گوادر سر بندر کے مقام پر مسلّح افراد کی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدور جاں بحق اور ایک زخمی ہوا۔
سال بھر، خصوصاً ماہ اگست میں امن وامان کی صورت حال انتہائی مخدوش رہی
جب کہ اگست کے مہینے میں تو امن وامان کی صورتِ حال بہت زیادہ خراب رہی۔اس دوران کئی دل خراش واقعات بھی رُونماہوئے۔11اگست کو مستونگ، کھڈ کوچہ میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر پنجگور، ذاکر بلوچ جاں بحق ہوگئے۔23 اگست کو پشین میں پولیس لائن کے قریب بم دھماکے میں دو بچّوں سمیت تین افراد جاں بحق اور 17زخمی ہوئے۔ 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب کالعدم تنظیم بی ایل اے، مجید بریگیڈ نے منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان کے دس سے زائد اضلاع میں ایک ہی وقت میں حملے کیے، جس کے نتیجے میں14سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت 57افراد شہید اور20زخمی ہوئے۔
واضح رہے کالعدم عسکریت پسند تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی نے ان حملوں کی ذمّے داری قبول کی۔ سب سے زیادہ نقصان موسیٰ خیل، لسبیلہ، قلات اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں ہواکہ مسلّح حملہ آوروں نے موسیٰ خیل کے مقام پر پنجاب جانے والی مسافر بسوں کو روک کر 23مسافروں کو شناخت کے بعد بسوں سے اتار کر فائرنگ کرکے شہید کردیا اور 35 گاڑیوں اور ٹرکوں کوبھی نذرِ آتش کیا۔
قلّات میں لیویز چیک پوسٹ پر حملے میں پانچ اہل کاروں سمیت گیارہ افراد جاں بحق ہوئے۔کول پور میں ریلوے پُل کو دھماکے سے اُڑا دیا گیا۔ دوزان میں 4افراد کو شناخت کے بعد ٹرکوں سے اُتار کر بے دردری سے قتل کیا گیا۔ لسبیلہ میں سیکیوریٹی فورسز کے کیمپ پر بی ایل اے مجید بریگیڈ کی ایک خاتون، ماہل بلوچ سمیت تین خُودکش حملہ آوروں نے خُودکش کار بم حملے کیے۔ مستونگ، گلنگور اور گوادر میں مسلّح افراد نے لیویز چیک پوسٹ اور تھانے پر حملے کے دوران اہل کاروں کو یرغمال بناکر اسلحہ چھین لیا۔
بعدازاں، کالعدم تنظیم کے مسلّح افراد قلات، مستونگ، کول پور، موسیٰ خیل میں جگہ جگہ ناکے لگاکر لوگوں شناختی دستاویزات کی چیکنگ کرتے رہے۔ ماہِ ستمبر میں کچلاک اور ژوب میں پولیس اور اے ٹی ایف اہل کاروں پر فائرنگ اور بم دھماکوں کے مختلف واقعات میں پانچ اہل کار جاں بحق ہوگئے۔27 ستمبر کو پنجگور میں مسلّح افراد کی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدور جاں بحق ہوئے۔
بدامنی، شورش اور دہشت گردی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا، ایک کے بعد ایک دھرنا دردِ سر بنا رہا
یکم نومبر کو مستونگ اسکول کے سامنے بم دھماکے میں چھے بچّوں سمیت 9افراد جاں بحق اور 20زخمی ہوئے۔ 9 نومبر کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کوئٹہ سے راول پنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس کی روانگی سے کچھ دیر قبل پلیٹ فارم پر خُودکش حملے میں 20سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت 27افراد جاں بحق اور 62زخمی ہوئے۔
ان واقعات کی ذمّے داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف نے قبول کی، جب کہ کوئٹہ سمیت کچلاک، پشین، ژوب، قلعہ سیف اللہ اور چمن میں ہونے والے دھماکوں کی ذمّے داری کالعدم مذہبی تنظیموں نے قبول کی۔
واضح رہے، 25 اور 26 اگست کو ہونے والے واقعات نے بلوچستان سمیت پورے مُلک کے عوام، حکومت اور سیکیوریٹی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان ہی واقعات کے فوری بعد کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلایاگیا، جس میں وزیراعظم، شہباز شریف، آرمی چیف، عاصم منیر اور انٹیلی جینس اداروں کے افسران بھی شریک ہوئے۔
بلوچستان میں رونماہونے والے ناخوش گوار واقعات کے باعث آرمی چیف اور صدرِ مملکت نے متعدد بار کوئٹہ کےہنگامی دورے بھی کیے۔26اگست کے واقعات کے بعد کوئٹہ میں نیشنل ایکشن پلان، ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیرِاعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے، انہیں کچلا جائے گا اور بلوچستان سے بدامنی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ بعدازاں، 19نومبر کواسلام آباد میں وزیرِاعظم کی صدارت میں ہونے والے نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس میں بلوچستان میں جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان، میر سرفراز بگٹی کا صوبے میں امن وامان کی صورتِ حال کے حوالے سے کہنا تھا کہ’’ تشدّد مسئلے کا حل نہیں، ریاست اور حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں، اگر دوسرا فریق مذاکرات نہیں کرنا چاہتا، تو ہم اپنے عوام کی جان ومال کے تحفّظ کو یقینی بنائیں گے۔‘‘ یاد رہے، بلوچستان ماضی قریب تک مُلک کا ایک پُرامن صوبہ رہا ہے، تاہم گزشتہ پندرہ سولہ سال کے دوران یہاں بدامنی اور دہشت گردی کی ایک ایسی لہر کا نے جنم لیا، جس کا خاتمہ تاحال نہیں ہوسکا۔
ہاں البتہ شدّت میں کمی بیشی ضرور آتی رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات کے پیچھے بیرونی فنڈنگ ہے اور ان واقعات کا مقصد سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرکے ترقی کے سفر کو روکنا ہے، لیکن حکومتی سطح پر اس کا ہر حد تک مقابلہ کیا جائے گا اور عوام کی جان ومال کا تحفّظ بہرصورت یقینی بنایا جائے گا۔
رواں مالی سال2024ء۔25ءکے صوبائی بجٹ میں امن وامان ہی کی مَد میں 53فی صد اضافہ کرکے 84ارب روپے مختص کیے گئے، جب کہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں یہ رقم 54.9 بلین روپے تھی، مگر اس کے باوجود صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال خراب تراور شورش میں اضافہ ہی دیکھا گیا۔
قومی شاہ راہوں پر بدامنی اور دہشت گردی کی متواتر وارداتوں کے سبب عوامی سفر غیر محفوظ ہونے کے ساتھ حادثات کی شرح میں بھی ہوش رُبا اضافہ ہوا۔ سالِ رفتہ کوئٹہ سے کراچی، تفتان، جیکب آباد، چمن ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کی شاہ راہوں پر تواتر سے حادثات پیش آتے رہے۔ اور ان ٹریفک حادثات میں تقریباً پانچ سو افراد جاں بحق، جب کہ تین ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
دوسری جانب کوئٹہ، چمن اور گوادر سمیت دیگر علاقوں میں احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ چمن میں پاک افغان بارڈر پر پاسپورٹ کے اجراء کے خلاف سیاسی جماعتوں اور مزدوروں کے اتحاد کی جانب سے طویل احتجاجی دھرنا دیا گیا اور کئی مہینوں پر محیط یہ دھرنا حکومت سے مذاکرات کے بعد ختم کیا گیا۔
مگر چند ہی روز بعد لغڑی اتحاد نے حکومت پر وعدوں سے انحراف کا الزام عائد کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی صدر، اصغر خان اچکزئی کے ساتھ مل کر دوبارہ دھرنا دے دیا، جس کے بعد سے تادمِ تحریر یہ جاری ہے۔ اس حوالے سے چمن سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدراصغرخان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’’چمن کے عوام پر تجارت کے دروازے بند کرنا افسوس ناک ہے، پہلے ہی صوبے میں بے روزگاری، غربت اورپس ماندگی ہے، ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ سرحدی اضلاع میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے ۔‘‘
پھر بلوچ یک جہتی کمیٹی کی جانب سے بھی کوئٹہ ، نوشکی اور گوادر سمیت صوبے کے دیگر شہروں کے اہم مقامات اور شاہ راہوں پر احتجاجی دھرنے دیئے گئے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کی جانب سے لاپتا افراد کی بازیابی اور بلوچ علاقوں میں آپریشن کے خلاف احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں کا سلسلہ شدّت سے جاری رہا، جب کہ بدامنی و دہشت گردی کے مختلف واقعات، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کے خلاف بھی قومی شاہ راہوں پر احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ سال بھر جاری رہا۔
30 ہزار بے روزگار نوجوانوں کو بیرونِ ملک بھیجنے، زرعی ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر منتقلی جیسے فیصلے مثبت پیش رفت ثابت ہوئے
سال ِ گزشتہ کے دوران بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پر متعدد تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔ فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات پر بلوچستان میں بھی بہت زیادہ اعتراضات ہوئے۔ 2مارچ کو سرفراز بگٹی 65 کے ایوان میں41ووٹ لے کر وزیرِاعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے۔ سرفراز بگٹی کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے، جنہیں مسلم لیگ(نون) ، بلوچستان عوامی پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکان نے بھی ووٹ دیئے۔
البتہ نیشنل پارٹی اور جے یو آئی نے ووٹنگ کے عمل میں حصّہ نہیں لیا۔ اگرچہ، صدرِمملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم، وفاقی وزراء، گورنر، اور دیگر صوبائی حکام سال بھر تواتر سے یہی دہراتے رہے کہ بلوچستان کی تعمیر وترقی اورخوش حالی اُن کی اوّلین ترجیح ہے، مگر اہالیانِ بلوچستان تاحال وعدوں کی تعبیر سے محروم اور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب وفاق، صوبائی حکومت اور سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین بلوچستان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ایک پیج پر ہیں، تو پھر آخر بلوچستان کے مسائل حل کیوں نہیں ہوتے۔
گزشتہ برس کی ایک اہم خبر یہ بھی رہی کہ’’ بلوچستان نیشنل پارٹی‘‘ کے سربراہ، اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے جب کہ دو سینیٹرز نے سینیٹ کی رکنیت، استعفے دے دیئے۔ مبصّرین کا کہنا ہےکہ بظاہر بی این پی کے پاس محدود پارلیمانی مینڈیٹ سہی، لیکن قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بی این پی اراکین کا مستعفی ہونا صوبے کی صُورتِ حال پر یقینی اثر انداز ہوگا اور مستقبل میں یہ اقدام حکومت اور اسٹیبلشمینٹ کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان متعدد وجوہ کی بِنا پر باقی صوبوں سے امتیازی حیثیت کا حامل ہے، اِسے باقی صوبوں کے بہت بعد میں صوبے کا درجہ ملا۔ یہاں غربت و پس ماندگی بھی زیادہ ہے اور وسیع و عریض رقبے کے حامل صوبے کی دو ہم سایہ ممالک کے ساتھ طویل سرحدیں بھی ملتی ہیں۔
گرچہ گوادر میں طویل ساحلی پٹّی ہے، جو چین، پاکستان اقتصادی راہ داری کے منصوبے (سی پیک) کا مرکز و محور ہے۔ صوبے میں تیل و گیس کے علاوہ سونے، چاندی سمیت دیگر بیش قیمت معدنی ذخائر موجود ہیں، لیکن ہر طرح سے مالا مال ہونے کے باوجود صوبے کے عوام ابھی تک بنیادی نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں۔
زراعت صوبے کا سب سے بڑا پیداواری شعبہ ہے، جس سے عوام کی غالب اکثریت وابستہ ہے، مگر یہ شعبہ بھی عدم توجّہی کے باعث زوال کا شکار ہے۔ تاہم، خوش آئند امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اس شعبے کے لیے عملی اقدام اٹھاتے ہوئے صوبے کے 27000سے زائد زرعی ٹیوب ویلز کے، شمسی توانائی پرمنتقلی کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔55 ارب روپے کے سولرائزیشن کے اس منصوبے کے لیے30فی صد فنڈ صوبائی حکومت، جب کہ 70فی صد وفاق مہیّا کرے گا۔
حکومت کا ایک اور اہم اقدام بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے تیس ہزار نوجوانوں کو روزگار کے لیے بیرونِ مُلک بھیجنے کے منصوبے پر عملی پیش رفت ہے۔ ان نوجوانوں کو دوسال کے عرصے میں بیرونِ مُلک بھیجا جائے گا۔ ناقص انتظامات کے باعث آج بھی صوبے کی بڑی انڈسٹری یعنی کوئلے کی کانیں موت کے کنوؤں کا منظر پیش کرتی ہیں، جہاں آئے روز حادثات و واقعات پیش آتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی کوئلہ کانوں میں پیش آنے والےحادثات میں چالیس سے زائد کان کن جاں بحق ہوئے۔ المیہ یہ ہے کہ صوبہ بلوچستان بدترین موسمیاتی چیلنجز سے بھی نبرد آزما ہے۔
کہیں طوفانِ بادو باراں ہے تو کہیں طویل خشک سالی کے اثرات نمایاں ہیں اوران ہی کے سبب صوبے کی معیشت ومعاشرت کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر چند کہ وزیرِاعلیٰ میر سرفراز بگٹی اٹھتے بیٹھتے یہ راگ الاپتے ہیں کہ گورننس میں بہتری لائی جائے گی، جلد عوام کےدیرینہ مسائل حل ہوں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کو موجودہ صوبائی حکومت سے کچھ خاص امیدیں اور توقعات نہیں ہیں۔ بہرحال، وہ منتظر ہیں کہ ایک ایسے وقت میں، جب سال کے ہندسے بدلے ہیں، تو ممکن ہے کہ ان کی تقدیر بھی بدل ہی جائے۔