یہ 17اکتوبر 2024کی بات ہے میں بھی دنیا کے کروڑوں لوگوں کی طرح دکھ اور تکلیف کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے ریلیز کی جانے والی وہ ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں حماس کے نو منتخب سربراہ یحییٰ سنوار غزہ میں ایک تباہ شدہ عمارت میں صوفے پر زخمی حالت میں بیٹھے ہیں اور ایک اسرائیلی ڈرون ان کی ویڈیو بنا رہا ہے اور وہ مرد مجاہد اپنے آخری لمحات میں بھی اس ڈرون کو ایک ڈنڈے سے مارنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ڈرون اپنا کام کر چکا ہوتا ہے، یحییٰ سنوار شہید ہو جاتے ہیں۔ یوں اسرائیل نے جدید ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت بڑی فتح حاصل کر لی، صرف اتنا ہی نہیں اسرائیل نے چند ماہ قبل حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران کے انتہائی محفوظ مقام پر شناخت کر کے ڈرون حملہ کر کے شہید کیا جس کی ذمہ داری بھی اسرائیلی وزیر دفاع نے قبول کر لی تھی۔ صرف یہ دو بڑی شخصیات ہی نہیں اسرائیل نے اس یکطرفہ جنگ کی آڑ میں حماس، حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیم کی سرکردہ شخصیات کو چن چن کر ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے شہید کیا۔ اس حوالے سے چند ہفتوں قبل پاکستان کے معروف صحافی حامد میر، جو خود اسرائیل کے لبنان پر حملے کے بعد کوریج کیلئے لبنان گئے تھے، سے میں نے یہ سوال کیا کہ کیا لبنان میں کوریج کے دوران کبھی انھوں نے محسوس کیا کہ وہ اسرائیلی ڈرونز کی نظروں میں ہیں؟ حامد میر نے بتایا کہ پورے دورے میں نہ صرف وہ بلکہ پورا بین الاقوامی میڈیا اسرائیلی ڈرونز کے نشانے پر تھا، کئی دفعہ انھوں نے خود ڈرونز کو نچلی پرواز کرتے ہوئے دیکھا بھی تھا، یعنی اسرائیل نے نہ صرف غزہ بلکہ لبنان پر بھی اپنے ڈرونز کے ذریعے قبضہ کیا ہوا ہے، ڈرون ٹیکنالوجی نے اسرائیل کو غزہ، لبنان اور اب شام میں بھی بہت بڑی فتح دلائی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کی حالیہ جنگ سے تھوڑا اور پیچھے چلیں تو پاکستان میں شمالی وزیر ستان میں امریکہ نے ڈرون حملہ آور طیاروں کے ذریعے طالبان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور تحریک طالبان کی پوری قیادت کو ڈرون حملوں میں ختم کر دیا تھا، جن میں سب سے اہم ترین کمانڈروں میں بیت اللہ محسود تھا جس نے مقامی آبادی اور ریاست پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا تھا بیت اللہ محسود کو امریکہ نے پانچ اگست 2009 کو جنوبی وزیر ستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا تھا، اس کے بعد تحریک طالبان کی قیادت سنبھالنے والا حکیم اللہ محسود تھا جس نے پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش حملوں کا بازار گرم کر رکھا تھا، جسے امریکہ نے یکم نومبر 2013 کو شمالی وزیر ستان کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا، اسکے بعد ولی الرحمن محسود کو بھی امریکہ نے 29مئی کو 2013کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا یہ حکیم اللہ محسود کا قریبی ساتھی اور تحریک طالبان کا نائب امیر تھا۔ تحریک طالبان کے خاتمے کیلئے جہاں پاک فوج نے شاندار قربانیاں اور خدمات انجام دیں وہیں اس میں ڈرون حملوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں، ہماری فوج کے ہر سپاہی میں ملک کیلئے جان دینے کا جذبہ موجود ہے اور ہزاروں قربانیاں دیکر ہمارے جوانوں نے اس بات کو ثابت بھی کیا ہے، لیکن آجکل پھر پاکستان کو افغانستان اور بھارت کی جانب سے خطرناک دہشت گردی کا سامنا ہے، گزشتہ روز آرمی چیف کے بیان نے قوم کو حوصلہ دیا ہے کہ پاکستانی قوم کے ایک فرد کا خون بھی ہمیں پورے افغانستان سے زیادہ عزیز ہے، اس وقت ہر دوسرے دن یہ خبر سامنے آتی ہے کہ دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے تو کبھی دہشت گردوں کا صفایا کرتے ہوئے ہمارے جوان بھی شہید ہورہے ہیں، لہٰذا پاکستان سمیت کئی ممالک کے دفاعی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ آجکل کی جنگ میں عددی برتری سے زیادہ ٹیکنالوجی کی برتری کی ضرورت ہے، امریکہ اتنے برس عراق میں لڑا، افغانستان میں لڑا لیکن اسکی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، اسرائیل نے کئی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن اسکی ہلاکتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسلئے پاکستان کو بھی اب اپنا کم ازکم تیس فیصد دفاع ڈرون ٹیکنالوجی پر شفٹ کردینا چاہیے، خصوصاََ فوجی موومنٹ کے دوران دہشت گردوں پر نظر رکھنے کیلئے پورا ڈرون نظام ساتھ ہونا چاہیے تاکہ پاکستانی افواج کا جانی نقصان کم سے کم ہو، ہر چھائونی اور ہر پوسٹ پر فائٹر ڈرونز بھی تعینات ہونے چاہئیں جو دشمن کے حملے سے قبل ہی اسکو نیست و نابود کر دیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور پاک فوج کی حفاظت کرے۔ آمین