اب تک کی بحث و نظر سے ثابت ہوا کہ اربن لاہورمیں زیادہ تر فضائی آلودگی کا باعث کنکریٹ کا بھاری Envelopاور لاکھوں گاڑیوں کے لمبے پھیرے ہیں اور یہ کہ اسموگ کامرکز شہر کےاندر ہی چند کلو میٹر ریڈیس کا علاقہ ہے۔ جس میں صوبائی سیکریٹریٹ، دفاتر، ان گنت عدالتیں، بازار، مارکیٹس اور بے شمار بلند و بالا کمرشل بلڈنگز موجود ہیں جہاں شہر اور پورے صوبے کے اطراف و اکناف سے ہر روز لاکھوں انسان اپنی موٹر گاڑیوں میں آتے ہیں۔ ان عمارات اوریہاں چلنے والے اے سی، آلودگیوں اورفضائی Turbulanceکا باعث بنتے ہیں۔
اسموگ اور آلودگی کی تباہ کاریوں کے باعث باغوں کا شہر لاہور اس وقت شہر بیمارکی صورت ہے اور فرسوہ پلاننگ کے ہاتھوں دل گرفتہ بھی۔ اس شہر کی رعنائیوں کونسلوں تک زندہ رکھنے کے لئے لازم ہے کہ تمام Stake Holder یعنی حکمران، عوام الناس، سیاسی و سماجی حلقے ایک موثر اصلاحی منصوبے یعنی Mitigation Plan پر فوری عملدرآمد شروع کریں۔ ایسا منصوبہ ہم سب سے اپنے مالی مفادات کی قربانیوں کا تقاضا کر تا ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے۔
شہر کے مرکز سے کم از کم بیس کلو میٹر ریڈیس میں شامل علاقے کو متاثرہ اور حساس گردانتے ہوئے یہاں مزید کمرشلائزیشن پر پابندی عائد کر دی جائے تاکہ گاڑیوں کی آمدورفت محدود ہو۔ جدید تحقیق کے مطابق بلند و بالا عمارات اپنے ارد گرد Heat Islandsکو فروغ دیتی ہیں۔ جس کی بناپر ہوائیں سست رفتار یا ساکن ہو جاتی ہیں اور یوں لوکل اسموگ کا باعث بنتی ہیں۔ اس حساس زون میں فی الحال بلند عمارات کی مزید تعمیر روک دی جائے۔
سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ (CBD) کو ہائی رائز کمرشل عمارات کی تعمیر کے ایڈونچر کے لئے لاہور کے بیرونی علاقوں (بیرون رنگ روڈ) طبع آزمائی کروائی جائے یا لاہور سے باہر منتقل کر دیا جائے۔ باور رہے کہ شہر میں کنکریٹ بمقابلہ گرین Envelopکی شرح خطر ناک حد تک نقصان دہ ہوچکی ہے۔اس کو بہتر بنایا جائے جس کے لئے گلیوں، بازاروں، چھتوں پر کنکریٹ بچھانے سے احتراز کیا جائے۔ حساس زون (20کلو میٹر ریڈیس) میں گاڑیوں کی آمد و رفت کو محدود کرنے کے لئے گھروں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور ادارہ جاتی سطح پر پبلک ٹرانسپورٹ نظام کا اجرا کیا جائے اور ہر قسم کی گاڑیوں کونامیاتی پیٹرول اور ہائیڈرو کاربن ایندھن کی بجائے الیکٹرک پاور پر منتقل کر دیا جائے۔
شہر کی عدالتی، کاروباری اورد فتری سر گر میاں حساس زون کے مختصر علاقے میں مسدود اور محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ جو کہ منصوبہ سازوں اور انتظامی عہدیداروں کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایسے عناصر کی جانب سے کسی قسم کی پشیمانی کی بجائے مزید بلند بالا عمارات کی تعمیر جاری ہے۔ فضائی آلودگیوں کے اس ماحول میں ایسی تعمیرات اور سر گرمیوں کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اس اژدھام نے پورے شہر کی ماحولیاتی بقاکو پر خطر بنا دیا ہے۔ لاکھوں Commutersروزانہ لمبے فاصلے طے کر کے آلودگیوں کو بکھیرتے مرکزی لاہور پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ پلاننگ کے جدید اصولوں کے تحت دفتری، عدالتی و کاروباری سر گرمیوں کے ایک جگہ ارتکاز کی بجائے بیرون شہر آبادیوں کے تناسب سے پھیلا دیا جائے۔
لاہور شہر کی فضائی اور ماحولیاتی بقا (Ecology) کو بدترین تعمیرات نے زبر دست نقصان پہنچایا ہے۔ جس کی مثال انڈر پاسز اور فلائی اوورز کی بے ہنگم پلاننگ اور تعمیر ہے۔ بابو صابو سے نیازی چوک تک نو تعمیر شدہ بلند و بالا رنگ روڈ نہ صرف اربوں روپے کا ضیاع ہے بلکہ شہر کی ہواؤں کو ساکن کر رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نو تخلیق شدہ ادارہ RUDA کی تعمیراتی سرگرمیوں سے نہ صرف دریائے راوی کی ہزاروں سال قدیم Ecology شدید متاثر ہو گی۔ خدشہ ہے کہ راوی کنارے ہر دو اطراف کنکریٹ کی تعمیرات سے شہر لاہور کا فضائی پیٹرن مزید تباہ ہو جائیگا۔ جو مستقبل میں انسداد اسموگ کی کوششوں کو سبوتاژ کر دے گا۔ بہتر ہے کہ RUDA کے کثیر تعمیراتی منصوبوں پر نظر ثانی کی جائے۔ اس کے اسکوپ سے کمرشل،رہائشی اور دفتری تعمیرات نکال کر اس منصوبے کو خالصتاً ماحولیاتی اور آبی بندوبست تک محدود کر دیا جائے۔ نیز دریا کے ہر دو جانب وسیع تر علاقے میں جنگلات کا فروغ شہر کے فلو را اور فانا کو مستحکم کردےگا۔ جو کہ تعمیرات کی نسبت شہر لاہور کے ماحولیاتی تنزل کوروک دے گا۔
بیرون لاہور سے ا سموگ کی درآمد کو روکنے کیلئے مضافاتی زرعی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ کھیتوں میں Stubble Burning اور انرجی پلانٹس میں بطور ایندھن کوئلے کے استعمال پر پابندی اور قانون سازی کی جائے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام نو ٹریڈم کنونشن 2002 کے فیصلوں کی روشنی میں پڑوسی ممالک کے اشتراک سے مشترکہ حکمت عملی وضع کی جائے تاکہ اسموگ کی ٹرانس باؤنڈری حرکت پذیری کو روکا جا سکے۔ اس کنونشن کی رو سے پڑوسی ممالک کو باہمی رقابت کے باوجود پابند کیا گیا ہے کہ وہ فضائی آلودگی اور کثافتوں کی آمد و رفت پر قابو پانے کیلئے مفید معلومات کا تبادلہ کریں اور ماہرین کیلئے مطالعاتی دوروں کا اہتمام کریں۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تنزلی اور اس کے بد اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں جدید اور منظم ٹیکنکل فورس کی ضرورت ہے۔ اس وقت ماحولیات کے محکمہ جات ازکار رفتہ کالونیل انتظامی ڈھانچے کے زیراثر ہیں اور محکمہ مال کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یہاں سیاسی اور انتظامی عہدیداروں کے لئے تو فوری ایکشن نیز سرکاری میگا پروجیکٹس کیلئے فوری NOC کی سہولیات موجود ہیں۔ جبکہ عوام الناس کیلئے روایتی سستی اورسرخ فیتہ کار فرما ہے۔ چنانچہ وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے ٹیکنیکل محکمہ جات کو مستعد لیکن پروفیشنل قیادت کی عملداری میں دے دیا جائے۔ جو محض ریونیو میں اضافہ اور مالی فوائد سے قطع نظر خدمات اور آگاہی فراہم کریں نیز لاہور کے بیمار ماحول کو دوبارہ شاندار اور صحت مند بنا سکیں۔