قوم کی بیٹی مریم نوازنے ناٹ آئوٹ رہتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کی سنچری بنا ڈالی ہے جبکہ نیازی کے جتھےکو چھوڑنے والے وزرا، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور پارٹی عہدے داران کی سنچری ہو چکی ہے، راجہ خرم نواز، فواد چوہدری ،اسد عمر، شیریں مزاری، عامر کیانی، عمران اسماعیل، سیف اللہ نیازی ، علی زیدی، خسرو بختیار، ملیکہ بخاری، جمشید اقبال چیمہ، مسرت جمشید چیمہ، ابرار الحق، سینیٹر سیف اللہ نیازی، فردوس عاشق اعوان، فیاض الحسن چوہان، فیض اللہ کموکا، خواجہ قطب فرید کوریجہ، خرم شہزاد، ملک جواد حسین، عثمان خان ترکئی، ہاشم انعام اللہ، اقبال وزیر، اجمل وزیر ، ڈاکٹر حیدر علی، جے پرکاش، صائمہ ندیم، آفتاب صدیقی، محمود باقی مولوی، سینیٹر عبدالقادر اور مبین خلجی کی دستبرادری کے نتیجے میں یہ جتھہ تتر بتر ہو چکا ہے لیکن قیدی ابھی تک اس غلط فہمی کا شکا رہے کہ وہ مقبول ہو رہا ہے، ایک طرف قوم کی بیٹی نےاپنے والد میاں نواز شریف کے ویژن پرعمل کرتے ہوئے خدمت کرنیکی قسم کھائی ہوئی ہے، جبکہ اس بدقسمت قیدی نے اپنی سیاست اور عاقبت دونوں ہی خراب کر لی ہیں، اپنی اپنی قسمت ہے مریم نواز جہاں جاتی ہیں وہاں سے قوم کیلئے کچھ نیا قابل عمل منصوبہ لا کر عوامی خدمت کا کام شروع کر دیتی ہیں، جیسے کہ قوم کیلئے سب سے بڑی خوشی ہے کہ چین پنجاب میں الیکٹرک گاڑیوں کے لئے 3000 اسٹیشن قائم کرے گا ،غریب عوام کو بلا امتیاز عمر کینسر کا جدید ترین علاج میسر ہو گا، بچوں کو مصنوعی ذہانت کی جدید ترین تعلیم دی جائیگی، زرعی انقلاب برپا کرنے کیلئے روبوٹک زرعی آلات بنیں گے، جبکہ وہ قیدی اپنے کٹھ پتلی کے ذریعے ایک بار پھر اسلحہ لیکر اسلام آباد پر چڑھائی کے پھوکے فائر مار کر رہا ہے، ادھر پنجاب ترقی کی نئی منازل طے کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب اس کا کے پی تنزلی کی کھائیوں میں گرتا چلا جا رہا ہے، پنجاب اور وفاق کو مالی استحکام دینے والی جماعت ن لیگ مضبوط سے مضبوط ہوتی جا رہی ہے جبکہ انتشاری جتھے کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے کیونکہ نہ اس جتھے میں کوئی سیاست تھی اور نہ ایک جماعت بننے کیلئے کوئی ایک بھی خوبی، انتشاری جتھے کے ہر شریک کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ہتھیار تھا یا منہ میں شعلے اگلتی زبان، ان کے دماغ شیطانی خیالات سے اٹے ہوئے تھے، جس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو آج ہو رہا ہے، یقین کر لیں کہ وہ وقت قریب ہے جب اس کا کوئی ایک بھی نام لیوا نہ ہو گا، ماہرین نفسیات کہتے کہ ہر وہ محبت جس میں اعتدال نہ ہو اس کا نتیجہ شدید نفرت کی شکل میں نکلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکبر ایس بابر سے لیکر گلوکار سلمان احمد سمیت ہر عمر ہر جنس اور ہر قسم کے جنونی افراد کو اس قیدی نے پہلے خود سے اور پھر اپنے جتھے سے متنفر کر دیا، ابرار الحق نے بھی اپنے چندے کے کاروبار میں مندا دیکھ کر اس کی انتشاری سیاست سے توبہ کر کے پھر سے ناچ گانا شروع کر دیا ہے، انتشاری جتھے سے فرار ہونیوالے اور قید سے بچنے کیلئے روپوش ہونیوالے دو سو ارب ڈالر والے المشہور جعلی سلطان راہی ترلے ڈال ڈال کر ڈیل کی درخواست کر رہے ہیں لیکن نہ انکو معافی ملے گی اور نہ قانون کے شکنجے میں پھنسے 9مئی والوں کو، کیونکہ انکا سرغنہ اپنے مخالفین کو ہر صورت ہرانے کی کوشش میں خود اپنی ہی بنائی اس دلدل میں جا گرا ہے جہاں سے سالم نکلنے کی گنجائش بالکل نہیں ہے، باقی رہا معاملہ انتشاری جتھے کی کمان سنبھالنے کا تو اس کی آخری لڑائی نند اور بھاوج میں جاری ہے، اس لڑائی میں کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، قیدی 804کے اندھے چاہنے والے یہ اشعار دوہرا کر اپنا غم غلط کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی یہ مجھے ستائے، کبھی کبھی یہ رُلائے/ فقط میرے دل سے اتر جائیے گا، مگر تم سے سیکھا، محبت بھی ہو تو، دغا کیجیے گا مُکر جایئے گا، بچھڑنا مبارک بچھڑ جایئے گا۔