یوں تو ہر مہینے کی جھولی میں موجود کسی نہ کسی حادثے کی کرچیاں احساس میں چبھتی رہتی ہیں مگر سال کے آخری مہینے کے ماتھے پر رکھے 16اور 27دسمبر کےالمناک حادثات کی یاد دل کو یوں افسردہ اور روح کو پژمردہ کرتی ہے کہ سانس کیساتھ آہیں بندھی محسوس ہوتی ہیں۔ پورے ماحول کی فضا میں حزن و ملال کے ساتھ شدید اداسی کا راج ہوتا ہے۔ بطور فرد اور قوم ان سانحات کو وقوع پذیر ہونے سے نہ روک پانے کا دکھ بے بسی اور لاچاری کا باعث بنتا ہے۔کئی برسوں سے جہاں سال کو الوداع کرتے نظیر بھٹو کی شہادت کا غم دل و جاں پر ماتمی کیفیت طاری رکھتا ہے تو نئے سال کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے جشن سے جھانکتی بے رحم پھانسی اعصاب پر جبر کے ضابطوں کے کچوکے لگاتی مزید سوگوار کرتی ہے۔کوئی بھی وزیراعظم یا کوئی جمہوری عہدے دار فرشتہ نہیں ہوتا ، جو کام کرتا ہے وہ غلطیاں بھی کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات جمہوری رہنماؤں سے غلطیوں کی فائل پر دھوکے سے دستخط کروا کے بہت سارے جرم اْن کی جھولی اور کھاتے میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جرات واستحکام کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس جماعت نے وقت کے جابر ضیا اور مشرف کا جبر برداشت کیا مگر جمہوری اقدار اور وفاقی سوچ کو تھامے رکھا۔
ہماری نسل نے سیاست میں خواتین کی طاقتور شرکت کا آغاز بے نظیر بھٹو کی شکل میں دیکھا۔فلسفہ اور سیاسیات کی تعلیم کے تناظر میں روشن خیال اور ثقافتی اقدار کی حامل پیپلز پارٹی کی طرف رحجان فطری تھا۔ بے نظیر کی پاکستان آمد ، آہنی حوصلے کے علمبردار مارچ، جلسوں کی قیادت اور جرات مندانہ موقف کی حامل تقاریر ہمارے طالبعلمی دور کا اثاثہ جو نظریاتی لوگوں کے حوصلے مضبوط کرتی تھیں۔ ووٹ کا حق عطا ہوا تو پہلی مہر بے نظیر کی جماعت پر ثبت کرکے عجیب تفاخر کا احساس ہوا۔ نوے 90 کی دہائی میں گجرات میں بے نظیر بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی۔ پگانوالہ فیملی میں شادی کی کوئی تقریب تھی ، برآمدے میں آمنے سامنے صوفے پڑے تھے۔ بیس پچیس خواتین بیٹھی تھیں۔ وہیں بے نظیر بھٹو کا دیدار ہوا ، وہ میرے سامنے صوفے پر براجمان تھیں۔ارد گرد موجود لوگوں کا حال احوال پوچھ رہی تھیں۔ رسمی بات چیت جاری تھی۔پھر باہر نکلتے ہوئے چار پانچ اخباری نمائندوں سے بات چیت کے لئے رک گئیں میں ایک طرف کھڑے ہو کر ان کی گفتگو سننے لگی ،اس دور کے کچھ گھمبیر معاملات پر ان کے عمدہ اور مدلل جوابات ، ان کی فہم وفراست اور انداز نے بہت متاثر کیا۔
برسوں بیت گئے۔ بے نظیر مسلم ممالک کی پہلی بار خاتون وزیراعظم بنیں ، دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں ، جمہوریت کو درپیش چیلنجوں کے باعث بہت سارے گرم سرد موسموں کے ذائقوں سے ہماری سوچ بھی متعارف ہوئی۔ کبھی خوشی کبھی غم والی آنکھ مچولی جاری رہی ، امید کا دِیا پوری قوت سے جگمگاتا رہا پھر کسی صیاد نے ہاتھ بڑھا کر روشنی کی گردن دبوچ لی اور امید کو مقید کردیا۔ ستائیس دسمبر کی عجیب صبح کاذب تھی۔مجھے امریکہ سے کینیڈا جانا تھا۔میرے میزبان ائیرپورٹ جاتے ہوئے عجیب سی کیفیت کا شکار تھے ، مجھ سے نظریں ملاتے ہوئے کترا رہے تھے۔
میں ائیرپورٹ کے اندر لا بی میں چلی گئی۔ ٹی وی کے نزدیک لوگوں کی بھیڑ تھی ، میں بھی ٹی وی دیکھنے لگی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی خبر چل رہی تھی ، سب خاموش اور افسردہ تھے ، خواتین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں ساکت و جامد تھی ، جب ایگزٹ مہر کے لئے پاسپورٹ بڑھایا تو اس افسر اور ساتھ والے کاؤنٹر پر بیٹھی عورت نے اس انداز میں افسوس کا اظہار کیا کہ میرے آنسو چھلک پڑے، میں ٹورنٹو تک روتی رہی۔ میرے سوا کوئی پاکستانی نہیں تھا مگر سب رنجیدہ تھے، جہاں بے نظیر بھٹو کی موت کا غم کر رہے تھے وہاں شدت پسند تنظیموں اور سوچ کو برا بھلا بھی کہہ رہے تھے جو ماؤں کو قتل کر کے زندگی کا چمن اجاڑ دیتے ہیں۔ بے نظیروں کو مار کر روشنی اور امید کو مقید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے ملک کی سبکی ہو رہی تھی ، یہ دکھ بھی اذیت ناک تھا۔جب میں ٹورنٹو اتری تو پاسپورٹ پر انٹری مہر لگانے والے نے افسوس کے ساتھ ملک میں آگ اور خون کے واقعات کی طرف اشارہ کرکے دل دہلا دیا ، رب خیر کرے، کیا ہوگا، اپنے ملک کی املاک جلانے سے کیا ہوگا ، اس کا ہرجانہ بھی ہم سے ہی لیا جائے گا ، شیشے کے پار بیٹھے مشرفوں کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ پھر آصف علی زرداری کی مختصر تقریر نے جاں کنی کے عالم میں پھنسی ریاست کو نویدِ حیات بخشی تو کسی عہدے کے بغیر اذیت ناک جیل بھگتنے والے آصف زرداری کیخلاف جھوٹے پروپیگنڈے نظر میں گھوم گئے۔
آج اتنی قربانیوں کے بعد بھی پیپلز پارٹی قائم دائم ہے ، اس وقت حقیقتاً یہ واحد وفاقی جماعت ہے جس کی نمائندگی ہرصوبائی اکائی میں موجود ہے۔ پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جواپنے سنہرے منشور پر عمل پیرا ہو کر ثقافتی اور جمہوری اقدار کے ذریعے اس ملک کو رجعت پسندی اور پسماندگی سے نکال سکتی ہے۔ یقیناً یہی عمل بے نظیر کی روح کے ایصال ثواب کا باعث ہوگا۔