• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال2024کئی لحاظ سے پاکستانی ووٹرز کے نام رہا کہ اُس نے تمام مشکلات کے باوجود اپنے ووٹ کا استعمال کمال مہارت سے کیا ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ، 8؍فروری کو ’ڈیجیٹل سیاست‘ نے روائتی سیاست ‘کو ووٹ کے ذریعہ شکست دی۔ 

اگر جلسے کی اجازت نا ہو، جلوس کی اجازت ناہو، قیادت جیل میں ہو تو کس طرح صرف وأٹس اَپ، ٹک ٹاک اور انٹرنیٹ کے ذریعہ موبائل کے استعمال سے پولنگ اسٹیشن تک پہنچا جاسکتا ہے اور کس کو کس طرح ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے جو سب سے کامیابی سے عمران اور اُن کی پارٹی نے استعمال کیا۔ تصویر کے دوسرے رُخ میں وہ اپنی ہی سیاست اور سوشل میڈیا کے ’اسیر‘نظر آئے۔

ملک سے باہر بیٹھے پی ٹی آئی کے ’’سوشل میڈیا گوریلوں‘‘ نے خود اپنی ہی پارٹی کے لیے راستے محدود کردیئے ، جس کی بڑی وجہ اُن کا زمینی حقائق سے دور ہونا ہے۔ ڈی چوک میں افراد کی تعداد سے لے کر لاشوں  کے انبار کی خبروں تک اور عمران کو زہر دینے کی خبر سے اُس کے اڈیالہ جیل میں نا ہونے کی خبروں سے صرف پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا اور بات پارٹی سے نکل کر خاندان تک آ گئی ، ایسے میں ’ٹرمپ کارڈ‘ یا ’سول نافرمانی‘ کی کال ایک بڑا رسک ثابت ہوسکتی ہے خود پارٹی کے لیے۔

پاکستان میں جمہوریت اور سیاست کو کبھی استحکام نہیں ملا اور اب بھی ہم عدم استحکام کا شکار ہیں۔ آئیں ماضی کی سیاست کا مختصرجائزہ لے کر حال پر نظر ڈالتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ، مستقبل کی ممکنہ سیاست کیا رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ 2018 کے انتخابات میں زیادتی ہوئی اور جو کھیل بلوچستان میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے خلاف’بغاوت‘ کروا کر کھیلا گیا جس کے نتیجے میں ایک نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا جنم ہوا وہ الیکشن میں مسلم لیگ کو آؤٹ کر کے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنوانے کی ابتدا تھی۔ 2018ء میں عمران خان وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے، اگر کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ کی جیتی ہوئی نشستیں پی ٹی آئی کو نہ دی جاتیں اور پھر اُنہی سے عمران کی حکومت میں شمولیت اختیار کروائی گئی۔ 

یہ بات آج خود عمران کہتے ہیں کہ اُس وقت ایک کمزور اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانا اُن کی سیاسی غلطی تھی، بعد میں اس سے بھی زیادہ بھیانک کھیل سینٹ کے الیکشن میں کھیلا گیا۔ وہاں اس وقت کی اپوزیشن کو واضح اکثریت حاصل تھی، مگر کم سیٹیں رکھنے والوں کو جتا کر فیض یاب کیا گیا ، امیرحاصل بزنجو مرحوم نے تواپنی ہار پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ، آج میں  حکومت سے نہیں جنرل فیض سے ہاراہوں‘‘

ہونا تو یہ چایئے تھا کہ اس سے کوئی اور نہیں خود پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سبق سیکھ لیتیں۔ ’میثاقِ  جمہوریت‘ کی اصل روح تو یہی تھی کہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت بند کی جائے مگر کیا کریں کہ ہمارے یہاں سیاست مفادات کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔

تاریخ سے سبق سیکھنا ہم نے سیکھا نہیں اور غلطیاں بھی پرانی ہی کرتے ہیں۔ الیکشن ہمارے یہاں ہمیشہ ہی متنازع رہے ہیں البتہ ۔2008میں ہونے والے انتخابات پر آج تک سوالات نہیں اٹھے ۔الیکشن ہوئے تو دونوں بڑی جماعتوں نے پہلی بار اتحادی حکومت بنائی مگر یہ اتحاد زیادہ عرصہ چل نا سکا، گو کے نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان ’بھوربن معاہدہ‘ کے تحت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری کی واپسی بحیثیت چیف جسٹس طے تھی، مگر زرداری صاحب بعد میں اس معاہدہ سے پیچھے ہٹ گئے ، یوں انہوں نے جسٹس ڈوگر کی خاموش حمایت کردی۔ 

مسلم لیگ ناصرف کابینہ سے باہر آگئی بلکہ میاں صاحب نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کردیا ، اور پھر ایک نئی ’سردجنگ‘ کا آغاز ہوگیا جو تقریباًڈیڑھ سال جاری رہی۔

اس ساری سیاست اور کشیدگی کا فائدہ عمران خان کو ہوا، نا اُن کے پاس کوئی منظم تنظیم تھی نہ بہت زیادہ سیاسی لوگ ،لیکن عام آدمی دونوں جماعتوں کی باہمی چپقلش سے مایوس بھی تھا پھر کوئی تیسرا آپشن نا تھا۔

مذہبی جماعتوں کو کبھی بھی انتخابی محاذ پر بڑی کامیابی نہ مل سکی۔ زرداری صاحب نے مسلم لیگ (ن) کا توڑ وہی نکالا جو جنرل مشرف نے نکالا تھا، وہ تھا ’’گجرات کے چودھری‘‘ ، تاہم اس ساری سیاسی لڑائی میں نہ مسلم لیگ نے نہ ہی پی پی پی نے، پاکستان کے نوجوان ووٹرز کو مخاطب کیا۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پارٹی سمیت ملک میں ایک بڑا سیاسی خلا پیدا کردیا تھا۔ زرداری صاحب بہت جلد سمجھ گئے تھے کہ وہ بھٹو یا محترمہ کی طرح عوامی سیاست نہ کر پائیں گے، لحاظ انہوں نے اپنی سیاست کا رُخ ’’جوڑ توڑ‘‘ کی طرف کرلیا جس میں وہ خاصی حدتک کامیاب بھی ہوئے اسی لیے اُنہیں جوڑ توڑ کا بادشاہ گر کہا جاتا ہے۔

عمران کی مقبولیت میں اضافہ

مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے سیاسی اختلافات نے تیسرے آپشن کا راستہ کھول دیا۔ زیادہ نقصان پی پی پی کا ہوا ،جس کی ایک جھلک ہمیں 2013ء کے الیکشن میں نظرآئی، جب پنجاب سے اپنے وقت کی سب سے بڑی جماعت پی پی پی کا صفایا ہوگیا۔ 

پی پی پی اِس غلط فہمی میں  مبتلارہی کہ تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا نقصان مسلم لیگ اور شریف برادران کو زیادہ ہوگا، مگر پی پی پی کے زیادہ تر ووٹر زاور مقامی لیڈرز نے تحریک انصاف کا رُخ کیا ۔لیکن2013ء کے الیکشن کے بعد سے عمران خان اور پی ٹی آئی نے پیچھے مُڑکر نہیں دیکھا۔

پی ٹی آئی کو چاروں صوبوں سے ووٹ پڑا ،مگر سب سے زیادہ کے پی سے۔پنچاب اور مرکز میں بھی ان کو اچھی خاصی نشستیں ملیں اور یقینی طورپر تحریک انصاف ایک متبادل سیاسی جماعت کے طور پر متعارف ہوگئی۔ کے پی میں کامیابی کی وجہ 2002ء سے 2008تک مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی ناقص کا رکردگی،کرپشن کے الزامات اورعمران کا سابقہ فاٹا کے علاقوں میں آپریشن کی مخالفت تھی۔ 

 پی ٹی آئی نے 2018ء کے الیکشن میں  ایک نئی تاریخ رقم کردی ،جب پہلی بار کسی جماعت نے مسلسل دوسری بار کامیابی حاصل کرکے حکومت بنائی اور وہ بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ ،جماعت اسلامی سے انہوں  نے پہلے ہی راہیں جدا کرلی تھیں، اس کا بڑی حدتک کریڈٹ وزیر ِ اعلیٰ پرویز خٹک کو جاتا ہے۔ 

تاہم اس تاریخٰی کامیابی کے باوجود عمران خان کا پرویز خٹک کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹا کر وفاق میں ایک ایسی وزارت دینا جس میں  زیادہ فیصلے مقتدرہ کے ہوتے ہیں سمجھ سے بالا تر تھا اور یہی بنیاد بنی دونوں کے اختلافات کی ، یہ اتنا ہی غلط فیصلہ تھا جتنا عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا جس کی بھاری قیمت ان کی ساڑھے تین سال کی حکومت نے دی اور اگر مسلم لیگ اور پی پی پی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد کے سیاسی منظر نامہ کو ٹھنڈے مزاج سے سوچتے تو آج مسلم لیگ کی پنجاب میں یہ حالت نہ ہوتی کہ فارم ۔47 کا سہارا لینا پڑتا۔ 

اِس وقت مسلم لیگ (ن) کی حالت حکومت میں ہونے کے باوجود یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی فکر میں ہیں۔ لہٰذا عمران خان کی مقبولیت میں جہاں ایک نئے ووٹر کی دریافت جس میں زیادہ تر نوجوان اور خواتین بشمول وہ فیملیز جنہوں نے پہلے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا تو دوسری طرف ایک عام ووٹر کی پی پی پی اور مسلم لیگ کی کارکردگی سے مایوسی۔ 

عمران خان کی حکومتی کارکردگی انتہائی مایوس کُن تھی ،اپنے دورہِ اقتدار میں اُن کی جماعت کو ضمنی انتخابات اور بلدیاتی الیکشن میں مشکلات کا سامنا رہا۔ پنجاب کی تویہ صورتحال تھی کہ وہاں بلدیاتی الیکشن کرانا تو درکنار جو منتخب نئے ناظم تھے اُن کو ہٹا کر اپنے ایڈمنسٹریٹر لگادیئے۔ اگر خان صاحب اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھی بلدیاتی الیکشن کرادیتے تو صورتحال بہتر ہوتی۔ 

 خان کی حکومت کے ڈیڑھ سال باقی تھے جب یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ ان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اختلافات شروع ہوگئے اور وہ ضرورت سے زیادہ آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید پر اعتماد کرنے لگے، لہٰذا جب خان صاحب نے جنرل باجوہ سے درخواست کی کہ جنرل فیض کا تبادلہ اکتوبر، 2022ء کے بجائے دسمبر تک روک دیا جائے ،کیونکہ اُن کے بقول افغان مسئلے کا حل نکلنے والا ہے تو ’فوجی کمانڈ‘ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور خان کے حوالے سے جنرل باجوہ کو شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے، آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ 

عمران مخالف اتحاد میں بھی جان پڑگئی ،پھر کچھ یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ حکمران اتحاد میں دراڑ پڑنا شروع ہوگئی۔ اور 8؍مارچ، 2022ء کو وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کردی گئی۔ عمران خان کو یقین تھا کہ یہ تحریک ناکام ہوگی۔ وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ جنہوں نے 2018ء میں اُن کی حکومت بنانے کے لئے ’اتحادی‘ دیئے تھے اُن ہی سے اگر آپ لڑ بیٹھیں گے تو نتیجہ کیا نکلے گا۔

’اتحادی‘ تو ویسے بھی ’سیاسی روبوٹ‘ ہوتے ہیں ،پھر خان صاحب نے آخری ’امریکی کارڈ‘ کھیلا،اِس سے کہیں بہتر تھا کہ وہ یہ کارڈ تھوڑا پہلے کھیل جاتے۔ سب سے بہتر آپشن خان کے پاس فروری، مارچ میں تھا جب یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانے والی ہے۔ 

جنرل باجوہ سے اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے ،ایسے میں اگر وہ قوم سے خطاب کر کے نئے انتخابات کا اعلان کردیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ اُن کے پاس جنرل باجوہ کو برطرف کرنے کا آپشن بھی تھا۔ عمران خان نے الزام امریکی حکومت کے اہم عہدہ دار ڈونلڈ لو پر لگایا کہ انہوں نے امریکہ میں مقیم پاکستانی سفیر سے کہا ہےکہ، امریکہ عمران کے دورہِ روس، سے خوش نہیں۔ 

پاکستان کی سیاست میں دو کارڈ ہمیشہ مقبولیت پاتے ہیں، اینٹی امریکن کارڈ، اور ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ کارڈ‘ اس کا اپنا ایک سیاسی پس منظر ہے۔ عمران خان حکومت سے بے دخل ہوئے تو انہوں نے یہ دونوں کارڈ استعمال کیے مگر جس چیز نے اُن کو سب سے زیادہ ’عدم اعتماد‘ کے بعد فائدہ پہنچایا وہ شبہاز شریف حکومت کے پہلے 16ماہ ہیں،جس میں مہنگائی اور امریکی ڈالرز ناقابل یقین حدتک اوپر ہی جاتا رہا۔ 

مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ خود حکمران جماعت کے بعض سینئر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر عدم اعتماد کے فوراً بعد انتخابات کردیئے جاتے تو شاید آج یہ صورتحال نا ہوتی۔ یہی نہیں مسلم لیگ(ن) کے اندر بھی شہباز حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا۔

عمران خان تو2023ء میں پنجاب اور کے پی کے ،میں اپنی ہی حکومتوں اور اکثریت کو ختم کرکے تاریخی سیاسی غلطی کرچکے تھے۔ اگر ان کی حکومت ہوتی تو عدم اعتماد کی تحریک کے باوجود 60فیصد پاکستان پر تحریکِ انصاف کی ہی حکومت ہوتی۔ ایسے میں شاید ’9۔مئی‘ ہوتا  نہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اُن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا جس سے وہ آج بھی گُزر رہے ہیں ۔

سال۔2024ء اور 8؍فروری

سابق وزیر اعظم نوازشریف اکتوبر ، 2023ء میں تین سال بعد وطن واپس پہنچے تو انہیں جلد احساس ہوگیا کہ زمینی حقائق،خاص طور پر پنجاب کا سیاسی مزاج ہی بدل گیا ہے ۔ شہبازحکومت کے 16 ماہ ،خود مسلم لیگ(ن) پر ’خود کش حملہ‘ ثابت ہوئے، الیکشن چند ماہ ملتوی کروانا بھی کام نہیں آیا، لہٰذا میاں صاحب نے پہلے دو تین جلسوں کے بعد ہی اندازہ کرلیا تھا کہ جس طرح 2013ء میں پنجاب پی پی پی کے ہاتھ سے نکل گیا ایسے ہی ’تخت پنجاب‘ شریفوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔

مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی دو تجربہ کار سیاسی جماعتیں  ہیں اور اس وقت جس ’ ہائیبرڈ نظام‘ کے وہ مخالف رہے اُس کا اب حصہ ہیں ۔پی پی پی آج بھی سندھ کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ اصل مسئلہ مسلم لیگ (ن) کا ہے، جہاں  اُس کے مقابل پاکستان تحریکِ انصاف ایک مضبوط قوت کے طور پر سامنے آن کھڑی ہوئی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ شریف کیوں نہ کہیں اس پر پابندی لگانے کا، اگر ایسا ہوتا ہے سال2025ء میں تو یہ شریفوں اور لیگیوں کی بڑی سیاسی غلطی ہوگی۔ 

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان بھی پی ٹی آئی پر پابندی کے حامی ہیں، کیونکہ اے این پی 2008ء کے بعد کے پی میں قدم نا جماسکی۔  سال۔ 2024ء پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے بانی عمران خان ، کے لئے بھی کھٹن ترین سال رہا۔ 

اِس میں جہاں ان کے ساتھ غلط ہوا، پارٹی رہنما اور کارکنوں پر کئی سو مقدمات قائم ہوئے ،گرفتاریاں ہوئیں ،وہ خود پورے ڈیڑھ سال سے جیل میں ہیں، وہاں خود پی ٹی آئی اور بانی نے اپنے آپ کو ’سیاسی تنہائی‘ کی طرف دھکیل دیاہے۔ 

24؍نومبر کو ’سولو فلائٹ‘ کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتا ہے، حالانکہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت پی ٹی آئی اور جمعیت العلمائے اسلام ایک دوسرے کے خاصے قریب آئے، اگر پی ٹی آئی یا عمران خان تھوڑا انتظار کرلیتے اور ’فانئل کال‘ یا تو دیتے نہیں یا واپس لے لیتے تو پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایک مضبوط اتحاد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ 

اسی طرح اگر 8؍فروری کے بعد تحریک انصاف اپنی سیاسی مخالف ہی سہی، پی پی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرلیتی تو شاید مسلم لیگ کے لئے حکومت بنانا آسان نہ ہوتا۔ مقبول لیڈر ہی مشکل اور کبھی کبھی غیر مقبول فیصلے کرتے ہیں۔ 

اِس وقت تحریک انصاف میں جو کشمکش چل رہی ہے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد نظر آتا ہے وہ آنے والے وقتوں میں خود بانی پی ٹی آئی کے لئے مزید مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ اب یہ اُن کی قیادت اور عمران کا امتحان ہے کہ وہ جس ’آخری کارڈ، کی بات کررہے ہیں وہ ’امریکی کارڈ‘ یا ’فائنل کال‘ کی طرح ہوگا یا 2025 کا ’ٹرمپ کارڈ‘ ہوگا۔ 

عمران کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست ایک عمل کا نام ہے جس میں عروج بھی ہے اور زوال بھی ،اس وقت وہ ایک ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں ۔ نوجوانوں کی اکثریت ان کے ساتھ ابھی تک تو کھڑی ہوئی ہے۔ ’ڈیجیٹل میڈیا‘ اُن کی بڑی سیاسی قوت ہے، مگر اسے چلانے والے اُن کو اور اُن کی جماعت کو سیاسی فائدہ پہنچارہے ہیں یا نقصان، اس کا فیصلہ خود انہوں نے کرناہے۔

26؍نومبر کو ’ڈی چوک‘ میں جو ہوا اُس کی اصل کہانی شاید کبھی بھی سامنے نہ آ سکے اور اگر آبھی گئی تو اُس پر سب اتفاق نہ کریں کیونکہ اس ملک میں سب کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے۔ ’ڈس انفارمیشن‘ دونوں ہی طرف سے پھیلائی گئی۔ 

اس سلسلے میں کوئی تحقیقاتی صحافتی رپورٹ سامنے نا آ سکی اب یہ ’فائنل کال‘ کے پی کی صوبائی حکومت بمقابلہ وفاقی حکومت تھا یا پی ٹی آئی بمقابلہ مقتدرہ تھا یا بشرہ بی بی بمقابلہ علیم خان تھا مگر اس کے نتائج خود پی ٹی آئی کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہوئے، کیونکہ 26؍نومبر کے بعد سے تحریکِ انصاف ایک بند گلی میں چلی گئی ہے، جبکہ مرکزی حکومت ایک ’ہائیبرڈ مارشل لا‘ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ،جس طرح کے قوانین بنائے جارہے ہیں اُس سے بہر حال’جمہوریت‘ مضبوط نہیں کمزور ہوگی۔ صحافت پر ’ڈیجیٹل سینسر شپ‘ عائد ہوتی نظر آرہی ہے، یہی نہیں آنے والے وقت میں اِن پابندیوں کے نتیجہ میں ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز زیادہ بھیانک انداز میں نظر آئیں گی جن پر قابو پانا خاصہ مشکل ہوگا۔

سال 2024ء نوجوان ووٹر کا ہی نہیں نوجوانوں  میں  اُبھرتی سیاسی قیادت کا بھی سال رہا۔ بلوچستان کی ماہ رنگ بلوچ اور کے پی کے منظور پشین، اس وقت مقبولیت میں بھی مریم نواز اور بلاول بھٹو سے آگے نظر آتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایسے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں  سیاسی عدم استحکام ہی نہیں ،سیاسی محرومیاں بھی اپنے عروج پر ہیں۔

لوگوں کا سرداروں، جاگیرداروں پر سے اعتماد اُٹھ رہا ہے،یہاں یا تو دہشت گرد، انتہا پسند طاقتور ہور ہے ہیں یا یہ نوجوان سیاسی قیادت ،ریاست اور حکومت کو ایک بیچ کا راستہ بتارہی ہے۔ اِن سے گفتگو نہیں کی گئی اِن کی ’قبولیت‘ نہیں ہوئی تو مقبولیت کو روکنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

ضرورت اِ س امر کی ہے کہ سارے وہ سیاست دان ایک ٹیبل پر آئیں جن کی سیاسی اہمیت ہے۔ عمران خان، ماہ رنگ بلوچ، منظور پشین، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمٰن ، حافظ نعیم الرحمان، خالد مقبول صدیقی، ماضی کو بھول کر حال کی طرف آئیں اور مستقبل کا فیصلہ کریں۔ آپ نے فیصلہ کرلیا تو فیصلہ سازوں کو بھی ’قبولیت‘ کے فلسفے سے دست بردار ہونا پڑے گا۔

پارلیمانی جمہوریت ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے، جس کے لئے ایک آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کےتحت ،جس پر سب کو اعتماد ہو۔ نئے انتخابات کی طرف ہی جانا پڑےگا۔ سب کو اپنی اپنی ’سیاسی غلطیوں‘ کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ سیاسی قوتوں کو بھی اور غیر سیاسی قوتوں کو بھی۔ ’میثاقِ جمہوریت‘ جس پر سب اتفاق کریں درست سمت میں ایک قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ 

 سیاست میں عدم مداخلت سے ہی سیاسی استحکام آئے گا اور یہی معاشی استحکام کی مضبوط سیڑھی ہے۔ یہ کہنا کہ اس کے بنا بھی معاشی استحکام ممکن ہے تو ایسا ممکن نہیں۔ ’ہائیبرڈ نظام‘ کا تجربہ بھی ناکام نظر آتا ہے ۔آج کا دور نئے مزاج کا دور ہے۔ آج کے نوجوان کی سوچ بہت مختلف ہے، وہ پابندیوں کو قبول نہیں کرتا ،نیا راستہ نکال لیتا ہے، آپ انٹرنیٹ سلو کردیں واٹس اَپ، ٹک ٹاک بند کردیں، موبائل اُس کے ہاتھ سے لے لیں، وہ نئی تبدیلیوں کے ساتھ آجائے گا۔ 

پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی مجھے یقین ہے ڈس انفارمیشن کا توڑ ’’مور انفارمیشن ‘‘ہے۔ عوام کو حکومت پر ریاست پر اعتماد ہوگا تو ہی راستہ نکلے گا۔ اس وقت بادیٔ نظر میں موجودہ حکومت 8؍فروری، کے ’ہائبرڈ نتائج‘ کے نتیجہ میں فارم47 کی حکومت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم تاریخی سیاسی غلطیاں بار بار نہ کریں۔ 

جمہوریت پابندیوں سے مضبوط نہیں ہوتی، اسے مضبوط کرنا،پی ٹی آئی۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ اب ’پروجیکٹ‘ بنانے کی فیکٹری بند ہونی چاہئیں ،اس نے صرف ملک کو نقصان پہنچایا ہے، یہی نیو پولیٹیکل آڈر، نیو معاشی آڈر اور نیو میڈیا آڈر کا تقاضہ ہے

سیاست ’بند گلی‘ میں

بانی پی ٹی آئی نے حال ہی میں ’سول نافرمانی‘ کی دھمکی دی ہے اور اگر ایسی کوئی’فائنل کال‘ آتی ہے تو کہیں یہ لڑائی ہمیں کسی بڑے سانحہ سے دو چار نہ کردے۔ بظاہر لگتا ہے ’سرکار‘ یا ’ریاست‘ نے عمران اور پارٹی کے سرکردہ، رہنماؤں پر 9؍مئی، پر تیزی سے مقدمات چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے،اب تو 26؍نومبر کے بعض مقدمات بھی قائم ہوگئے ہیں جس سےعمران خان کی رہائی خاصی مشکل نظر آرہی ہے۔ 

ایسے میں ’سول نافرمانی‘ کا بظاہر زیادہ اثر ایک بار پھر، کے پی میں ہی نظر آئے گا،مگر یہ کیا شکل اختیار کرتا ہے اور حکومت کیا آپشن استعمال کرتی ہے،بظاہردونوں  جانب رویہ، انتہا تک جاتا نظر آرہا ہے۔ اب کوئی مانے نہ مانے ہم سیاست کو ایک بند گلی میں لے آئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے خان صاحب ’آخری جنگ‘ کے موڈ میں ہیں جو خطرناک سوچ ہے، وہ خاصے پریشان اور پارٹی کی تنظیمی صورتحال سے فکر مند بھی ہیں،وہ خود ہی اپنے آپ اور پارٹی کو بھی ایک ’بند گلی‘ میں لے گئے۔

انہوں نے آخری ’سول نافرمانی‘ کی وارننگ2014ء میں دی تھی ،مگر اس بات کو 10 سال ہوگئے ہیں۔ اُس وقت دھرنے اور پارٹی کو بھی مقتدرہ کے ایک مضبوط حلقہ کی حمایت حاصل تھی۔ 2024ءمیں صورتحال مختلف ہے۔ مقبولیت کا نشہ اتناہی خطرناک ہوتا ہے جتنا ’اقتدار ‘ یا ’قبولیت‘ کا۔

سال2025ء مجھے 2024ء سے زیادہ بڑا چلینج نظر آتا ہے۔ یہ عمران اور تحریکِ انصاف کے سیاسی مستقبل کا سال ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی ایک بدلی شکل سامنے آسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اب مکمل طور پر ’ہائیبرڈ‘ ہوچکی ہے، جبکہ پی پی پی کا چھ ’کینال‘‘ والے معاملے پر وفاق اور مقتدرہ سے بڑھتا ہوا تناؤ کوئی بھی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ لہٰذا 2025ء بھی 2024ء کی طرح سیاسی ہنگامہ آرائی کا سال ہی ہوگا۔

جنرل فیض کا ’’دربار‘‘ اور ’’کوٹ مارشل‘‘

جنرل فیض حمید جو آج سے کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے سب سے طاقتور افسر تصور کیے جاتے تھے اور ناجانے کون کون ’’دربارِ فیض‘‘ میں حاضری دیتا تھا، 2024 میں خود مشکل میں رہے اور شاید ان کی گرفتاری سے لے کر ’’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل‘‘ کی خبر صرف اس سال ہی کی نہیں اس دہائی کی سب سے بڑی ’’خبر‘‘ ہو ،کیوں کہ ماضی میں کسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کو اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 

ویسے تو ابھی 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے ان کے مبینہ کردار اور ممکنہ بغاوت کی سازشوں پر تفتیش جاری ہے مگر انہیں ابھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر چارج شیٹ کردیا گیا ہے۔ 

یہ تو کہا گیا ہے کہ ان کے تقریباً پچاس سے زائد سیاست دانوں سے رابطے تھے مگر ان کے نام شیئر نہیں کیے گئے نا ہی ان رابطوں کی نوعیت کا علم ہوا۔ کیا ان میں وہ ’’سینئرز‘‘ بھی شامل ہیں جنہوں نے 2018ء میں چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں اس وقت کی اپوزیشن کا حصہ ہوتے ہوئے حکمراں اتحاد کے اُمیدوار، صادق سنجرانی کو ووٹ دیا۔ 

دربارِ فیض کے درباریوں کا بھی ذکر آجائے اور ملاقاتوں کی نوعیت پتا چل جائے، مگر شاید یہ ہوگا نہیں بس آپ کو اتنی خبر ملے گی کہ سزا ہوگئی یا الزام سے بری کردیا گیا۔ درباریوں کی خبر عام طور پر اس لیے بھی خفیہ رکھی جاتی ہے ،کیوں کہ انہیں دوسرے کے دربار میں بھی حاضری دینی ہوتی ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا مقدمہ بہرحال سال کی سب سے بڑی خبر کہا جاسکتا ہے اور اس کا فیصلہ ممکنہ طور پر سال 2025ء کے شروع کے مہینوں میں آنے کا امکان ہے۔ سیاست میں فیض حمید کی مداخلت کتنی تھی اور وہ اپنے پیش رو سے کس قدر مختلف تھے بادی نظر میں انہوں نے وہی کیا جو اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے یعنی سیاسی معاملات میں مداخلت۔ 

دیکھنا یہ ہے کہ وہ خود اپنے دفاع میں کیا موقف استعمال کرتے ہیں اور دو اہم ترین سربراہوں سے ان کے تعلقات کی نوعیت، ایک وزیراعظم عمران خان اور دوسرا اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ۔ اب اگر 2018ء میں عمران کو وزیراعظم بنانے کے لیے جو کچھ میاں نواز شریف، مسلم لیگ (ن) اور کراچی میں ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا کیا وہ جنرل فیض نے از خود کیا یا وہ باجوہ ڈائرکیشن کا حصہ تھا۔ اس مقدمہ میں پیش رفت کا انتظار رہے گا۔ اب اگر ان پر 9 مئی اور عمران کے ساتھ مل کر سازش کا الزام بھی لگ جاتا ہے تو معاملات نئے سال میں سنگین ہوسکتے ہیں ۔ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔