• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے ہندوستان کی ترقی اور معاشی مضبوطی ڈاکٹر من موہن سنگھ کی مرہونِ منت ہے، ہندوستان کے معاشی راستے سیدھا کرنیوالا یہ دانشور سیاستدان 26 دسمبر 2024ء کو دہلی کے ایک اسپتال میں یہ جہان چھوڑ گیا، من موہن سنگھ کی پیدائش 26ستمبر 1932ء کو ضلع جہلم کی تحصیل چکوال کے گاؤں گاہ میں ہوئی تھی، گاہ کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں انکا ریکارڈ موجود ہے، من موہن سنگھ بہت چھوٹے تھے جب انکی والدہ امرت کور کا انتقال ہوگیا تھا، جب بر صغیر کی تقسیم ہوئی تو من موہن سنگھ کے والد گورمکھ سنگھ خاندان کو لے کر جہلم سے بھارت چلے گئے، جہلم سے یاد آیا کہ بھارت کے ایک اور وزیراعظم آئی کے گجرال کا تعلق بھی جہلم سے تھا، بھارت منتقل ہونے کے بعد من موہن سنگھ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی، کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈی فل کیا، ڈاکٹر من موہن سنگھ نے معاشیات کے استاد کے طور پر خاصی شہرت حاصل کی، وہ پنجاب یونیورسٹی اور پھر دہلی اسکول آف اکنامکس میں پروفیسر رہے، اسی دوران وہ اقوام متحدہ میں تجارت اور ترقی کے مشیر بھی رہے، جنیوا میں ساؤتھ کمیشن کے سیکرٹری رہنے والے من موہن سنگھ 1971ء میں کامرس اینڈ انڈسٹری کی وزارت میں اقتصادی مشیر مقرر کئے گئے، 1972ء میں انہیں بھارت کی وزارت خزانہ میں اقتصادی مشیر بنایا گیا، وہ برسہا برس تک منصوبہ بندی کمیشن کے نائب صدر، ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر، وزیراعظم کے اقتصادی مشیر اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے سربراہ رہے۔ بھارت کی اقتصادی تاریخ میں سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب ڈاکٹر من موہن سنگھ کو 1991ء میں بھارت کا وزیر خزانہ بنایا گیا،1991ء سے 1996ء تک ہندوستان کے وزیر خزانہ رہے، یاد رہے کہ 1991ء میں من موہن سنگھ آسام سے راجیہ سبھا کے رکن بنے تھے، نرسیما راؤ کی حکومت میں وزیر خزانہ کے طور پر من موہن سنگھ نے بھارت کے معاشی زاویے درست کئے، انہیں بھارت کا معاشی مسیحا بھی کہا جا سکتا ہے اور جدید انڈیا کا بانی بھی۔ 1992ء میں ایک دن ایسا تھا جب پاکستان کے اکاؤنٹ میں دو ارب ڈالر تھے اور انڈیا کے اکاؤنٹ میں بھی دو ارب ڈالر، ڈاکٹر من موہن سنگھ اسی روز وزیر اعظم نرسیما راؤ سے ملے، انہوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ہمارا ملک پاکستان سے کئی گنا بڑا ہے مگر حالات یہ ہیں کہ آج پاکستان کے اکاؤنٹ میں دو ارب ڈالر ہیں اور ہمارے اکاؤنٹ میں بھی، نرسیما راؤ نے حل پوچھا تو ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بریفنگ دی اور کہا کہ ہمیں کم از کم بیس سال انہی لائنوں پر چلنا ہو گا، وزیراعظم راضی ہوئے تو من موہن سنگھ کا مطالبہ یہ تھا کہ اپوزیشن رہنماؤں کو بھی بلائیں، وہ بھی ان دستاویزات پر دستخط کریں اور عہد کریں کہ انڈیا میں کوئی بھی حکومت ہو، کم از کم بیس سال انہی لائنوں پر چلنا ہو گا۔ اس بات کو 32 برس بیت گئے ہیں، آج بھی انڈیا ڈاکٹر من موہن سنگھ کے بتائے ہوئے معاشی راستوں پر چل رہا ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ بھارت کے وزیراعظم بھی رہے، 2004ء میں جب کانگریس کو اپنے اتحادیوں کیساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا تو پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے وزیراعظم کا منصب قبول کرنے سے معذرت کی، انکی تجویز پر ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیراعظم بنایا گیا۔ 2009ء میں ایک مرتبہ پھر انتخابات میں کانگریس اور اسکے اتحادیوں کو کامیابی ملی تو من موہن سنگھ کو دوسری بار وزیراعظم بنایا گیا، ڈاکٹر من موہن سنگھ کو حکومتی تجربے کیساتھ ساتھ اپوزیشن کا بھی تجربہ تھا، وہ 1998ء سے 2004ء تک راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف رہے، وہ کچھ عرصہ کیلئے وزیر خارجہ بھی رہے، وزیر ثقافت بھی رہے، انکی مادری زبان پنجابی تھی، وہ نہ صرف اپنی زبان پر فخر کرتے تھے بلکہ وہ اپنے لباس پر بھی فخر کرتے تھے، وہ سر پر پگڑی سجائے دنیا کے بڑے سے بڑے فورم پر خطاب کرتے تھے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ بہت باصلاحیت تھے، شاید وہ پہلے سکھ تھے جو بھارت کے وزیراعظم بنے، انکا عمل بتاتا ہے کہ شخصیات ملکوں کو بدل کے رکھ دیتی ہیں، مسائل زدہ ملکوں کی مسیحائی کیلئے نوشی گیلانی کا شعر یاد آتا ہے کہ

جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں

کوئی چہرہ تو مرے شہر میں ایسا لا دے

تازہ ترین