حال ہی میں ایک خوش خبری سننے کو ملی کہ ایچ ای سی کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں شاندار ترقی ،بہترین انتظامی نظام اور اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں
"3G - Global Good Governance - Excellence in Higher Education Award 2016" سے نوازا گیا ہے ۔ اس طرح اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان کا واحد حکومتی ادارہ بن گیاہے جس کی اعلیٰ کارکردگی کو بین الاقوامی ماہرین نے تسلیم کیاہے ۔
اس ایوارڈ کااعلان گلوبل ڈونر فورم نے حال ہی میں استنبول ، ترکی میں منعقد ایک بین الاقوامی تقریب کے دوران کیا ۔ یہ فورم 2008 میں شروع کیا گیا تھا اس کے بعد سے یہ فورم ابو ظہبی (2009ء)،دوہا (2010ء)، دبئی (2011ء)،کوالالمپور (2012ء) اور واشنگٹن ڈی سی (2014ء) میں منعقد ہو چکا ہے ۔ ایچ ای سی کے ترجمان کے مطابق ’’ 2002ء میں ایچ ای سی کے قیام کے بعد سے ہی کمیشن ملک میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں منصفانہ رسائی، فیکلٹی کی ترقی ، تعلیم اور تحقیق میں مہارت، ٹیکنالوجی کی تیاری ، معیار کی یقین دہانی،جدّت طرازی اور معاشرتی ترقی کے فروغ کے لئے انتھک جدوجہد کر رہا ہے ‘‘۔گلوبل گڈ گورننس ایوارڈ 3Gایوارڈ دراصل کیمبرج کی IF Analytica کے طرز پر تیار کیاگیا ہے جو کہ 3G Methodology ’’3G طریقہ کار‘‘ پر مبنی ہے۔اس ایوارڈ کے لئے فاتح ایک عالمی سروے کے مطابق ویب سا ئٹ پر مو جود پانچ اہم معلومات کے بل بوتے پر منتخب کیا جاتاہے وہ یہ ہیں1۔شفّافیت 2۔سماجی ذمہ داری 3۔مضبوطی 4۔اثر اور 5۔جدّت طرازی ۔
اس ویب سائٹ پر یہ درج ہے کہ:
’’ اعلیٰ ترین معیار کو قائم رکھنے کے لئے نامزدگی حکومت، صنعت، اور ماہرین تعلیم پر مشتمل چنائو کمیٹی کی جانب سے مختلف سطح پر آزادانہ تجزئیے سےمشروط ہے ‘‘
ایک ایسا ملک جس کے بیشتر سرکاری ادارے روز بروز کی بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا شکار ہیںاور جہاں اقرباء پروری اور جانبداری روز کا کاروبار ہے وہاں ایچ ای سی کے بارے میں یہ خبر ہوا کے ایک تازے جھونکے سے کم نہیں۔گزشتہ 15سالوں میں ایچ ای سی نے جو وسیع پروگرا م شروع کئے ہیں انہیں بیان کیا جائے تو ہزاروں صفحات بھر جائیں گے۔ان سب کاوشوںکے نتیجے میں 2008ء میں پاکستان کی پانچ جامعات ٹائمز اعلیٰ تعلیمی شمارے میں دنیا کی 225 300, ،400 ، اور 500 کے مقام پر پہنچیں جن میں جامعہ کراچی 223 پر، نسٹ 250 پر اور یو ای ٹی لاہو ر قدرتی سائنسز کے مطابق 281 نمبر پرپہنچ گئی تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ یہ تمام جامعات بری طرح سے اپنے مقام سے نیچے آگئیں جو کہ پچھلی حکومت کی مایوس کن کارکردگی اور تعلیم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر کسی کو معلوم کرنا ہے کہ کیوں ایچ ای سی کامیاب ہو گئی جبکہ دوسرے ادارے ناکام رہے تو اسے تھو ڑی گہرائی میں کھوجنے کی ضرورت ہے۔ ہم آج سے چودہ سال پیچھے سے شروع کرتے ہیں جب اس ادارے کا قیام ہوا2002 ء میں میں اور میری کابینہ کے ساتھیوں نے ایچ ای سی کا قانونی ڈھانچہ بنا یا تھا۔ ہم نے اسی وقت فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کے دیگر سرکاری اداروں سے اس ادارے کو نمایاں طور پر مختلف بنائیں گے۔ سب سے پہلے تو اس ادارے کا چیئر مین کیسا ہونا چاہئے2002 ء میں اسکا آرڈیننس منظور کیا اور اس آرڈیننس کے مطابق ’’ چیئر مین ایسا شخص ہونا چاہئے جو بین الاقوامی طور پر نامور ہو اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہو، جو اعلیٰ تعلیم کے لئے بطور استاد یا محقق یا منتظم اعلیٰ نمایاں کردار ادا کرچکا ہو‘‘۔ اس قانون کا مقصد ادارے میں علمی اور فکری قیا دت کو یقینی بنانا تھا البتہ اس قانون کے مطابق چیئر مین کو مالیاتی اختیارات حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ اختیارات 18رکنی بورڈ کے پاس ہونگے جس کے دس اراکین بین الاقوامی نامور ماہر تعلیم ہونگے۔ یعنی کمیشن میں 18 میں سے 12 اراکین بین الاقوامی سطح کے بیرونی اور غیر جانبدار افراد ہوں گے۔ اس کے علاوہ قانون میں یہ بھی تھا کہ چیئرمین اور اس کمیشن کے اراکین کو وزیراعظم پاکستان (جو کہ اختیاری منتظم ہے) کو بھی برطرف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک کہ کسی بھی رکن یا چیئرمین پر بدعنوانی یا نااہلی ثابت نہ ہو جائے یا کسی قسم کی دائمی معذوری ہو جائے۔ اس قانون نے کافی حد تک حکومت کے اختیارات کو ایچ ای سی کے کاموں میں مداخلت کرنے اور اپنے نور نظر لوگوں کو کمیشن کا رکن بنانے سے محدود کر دیا ۔ اس کے علاوہ ایک اور حقیقت یہ تھی کہ چیئرمین کو مالیاتی اختیارات نہیں تھے جس کی وجہ سے بدعنوان سیاستدان اس تنظیم کے 70 ارب روپے سالانہ بجٹ پر نظر نہیں کر سکتے تھے جو ایچ ای سی جامعات میں سالانہ تقسیم کرتی ہے۔
ایچ ای سی کی کامیابی کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اس کے قیام کے 14 سالوں کے دوران اس کی پالیسیوں میں مستقل مزاجی رہی ہے۔ وہ پروگرام جو میں نے 2002ء میں شروع کئے تھے اور ان پر 2002ء سے 2008ء کے دوران عمل درآمد بھی کیا گیا تھا وہی پروگرام اگلے آنے والے چیئر مینوں بیگم شہناز وزیر علی، پروفیسر جاوید لغاری اور اب ڈاکٹر مختار احمد نے بھی جاری رکھے ہیں۔یہ بہت غیرمعمولی تھا کیونکہ پاکستان میں تو روایت ہے کہ ہر اگلا آنے والا پچھلے لوگوں کے کا م پر سخت تنقید کرتا ہے اور نئے سرے سے کام شروع کرتاہے جبکہ ایچ ای سی کے معاملے میں میر ے بعد آنے والے تینوں چیئرمین میرے نقش قدم پر چلے اور ان کی زبان پر گزشتہ چیئرمین کی جانب سے رکھی گئی بنیادوں کے لئے تعریفی کلمات کے سوا کچھ نہ تھا۔ چیئرمین جاوید لغاری کا دور سب سے مشکل دور تھا جب اس وقت کی حکومت نے ایچ ای سی کو توڑنے کی ہر ممکن کوششیں کیں حتیٰ کہ ایچ ای سی کی تحلیل کا اطلاع نامہ بھی جاری ہو گیا تھا کہ ایچ ای سی کو ٹکڑوں میں بانٹ کر صوبائی ایچ ای سی قائم کئے جائیں۔ یہ سب اس لئے کیا جا رہا تھا کہ ایچ ای سی نے 200 پارلیمانی اراکین کی جعلی ڈگریوں کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا تھا جن میں اس وقت کے ’’معزز‘‘ وفاقی وزیر تعلیم کی ڈگری بھی شامل تھی۔
ایچ ای سی کی کامیابی کا ایک اور اہم عنصر بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے ایچ ای سی کی کارکردگی پر باقاعدگی سے بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کا تفصیلی جائزہ لینا تھا۔ اس موقع پر دو شخصیتوں کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہو ں ڈاکٹر اکرم شیخ جواسوقت ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن تھے اور ڈاکٹر سہیل نقوی ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی تھے ان کی زبر دست کارکردگی نے ایچ ای سی کے پروگراموں کی بنیاد ڈالنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
ایک اور اہم قدم بھی جو میں نے اپنے دور میںایچ ای سی میں اٹھایا تھا وہ یہ تھا کہ ایچ ای سی کے اکاؤنٹس کو بین الاقوا می آڈیٹروں سے سالانہ آڈٹ کروایا تھا۔ سرکاری آڈیٹرز اکثر بدعنوان ہوتے ہیں اور اعتراضات پیش کرکے بعد میں رقم کے تبادلے سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اسطرح اربوں روپے بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بین الاقوامی آڈیٹنگ کمپنیوں کو متعارف کراکے ایچ ای سی کے اکاؤنٹس کو اس قسم کی بد عنوانی سے بچا یاگیا۔
پانچواں اور سب سے اہم عنصر جس نے ایچ ای سی کو گلوبل گڈ گورننس ایوارڈ کا مستحق بنایا وہ تھا ایچ ای سی کی تمام سرگرمیوں کے دائرہ کار میں معیار کو اوّلین ترجیح دینا تھا۔ USAID نے ایچ ای سی پر ایک آزاد اور مفصل تجزئیے کے بعد رپورٹ پیش کی جس میں مندرجہ ذیل کلمات اس پہلو کی بھر پور عکاسی کر رہے ہیں۔ از اقتباس
’’اپنے قیام کے آغاز ہی سے ایچ ای سی کا حیران کن پہلو یہ تھا کہ اس نے اپنی تمام سرگرمیوں کے لئے ہر دائرے کار میں عمدگی اور معیار کی سربلندی کو فوقیت دی۔ توقعات ابتداء ہی سے اعلیٰ قائم کی گئی تھیں۔ معیار کا اہداف بین الاقوامی معیار اور توقعات پر رکھا گیا تھا۔ فیکلٹی کی ترقی ، مطبوعات، پی ایچ ڈی توضیحات ، تحقیقی گرانٹس سے لے کر بہت سے ایچ ای سی کے پروگرام جن میں بیرونی ہم مرتبہ مبصرین کی طرف سے تشخیص سمیت تمام بین الاقوامی معیار پر مشروط تھیں۔ معیار پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ایچ ای سی کی قیادت کا رویہ یہ تھا کہ ’’ معیار مقدار سے کہیں زیادہ اہم ہے ‘‘۔
بہت خوب ایچ ای سی، مبارک ہو آپ سب کو جو اس ادارے کا حصّہ ہیں۔ آپ سب کاوشوں میں لگے رہیں کیونکہ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی نظام کے بل بوتے پر ہم مضبوط علمی معیشت قائم کر سکتے ہیں۔