• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوّت وہمّت، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں، جفا کشی و بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے۔ ہر میدان میں، خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، معاشرتی ہو یا معاشی، سائنسی ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی، نوجوانوں کا کردار ہر اول دستے جیسا رہا ہے۔

انقلابِ فرانس ہو یا انقلابِ روس(بالشویک، سوویت انقلاب)،مارٹن لوتھرکنگ کی بپا کردہ تحریک ہو یا’’عرب بہار‘‘، سب کے پیچھے نوجوانی کا جوش و ولولہ ہی کار فرما رہا۔ زمانۂ حال میں بھی ہر شعبۂ زندگی میں نوجوان ہی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ 

اِس وقت پوری دنیا میں نوجوانوں کی تعداد ایک ارب 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے، جب کہ پاکستان اِس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کی کُل آبادی کا نصف سے زائد حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور آج یہ تناسب تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ تازہ اعداد وشمار کے مطابق مُلکی آبادی22 کروڑ سے تجاوز کرچُکی ہے، جس میں سے تقریباً ساٹھ فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

 ڈھائی لاکھ بچّوں کو اسکولز میں لانے کے لیے تعلیمی ایمرجینسی نافذ، یوتھ بزنس لون اسکیم میں توسیع کا اعلان ہوا

سال 2024ء پاکستانی نوجوانوں(نسلِ نو) کے لیے کیسا رہا، اگر اِس ضمن میں سیاسی عمل کا بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے، تو 8فروری کو پاکستان میں 12ویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں جہاں ایک طرف مُلک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کی قیادت ایک نوجوان، بلاول بھٹّو زرداری کر رہے تھے، تو وہیں ان انتخابات میں نوجوان ووٹرز کا ٹرن آؤٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر، یعنی48 فی صد، رہا،حالاں کہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 2018 ء کے الیکشن کے مقابلے میں کم تھا۔پلڈاٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، عام انتخابات میں نوجوان ووٹرز کا ٹرن آؤٹ2018 ء کے مقابلےمیں گیارہ فی صد زاید تھا، جو الیکشن کے مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ سے بھی زیادہ ہے۔ 

تحریک لبّیک پاکستان نے الیکشن میں سب سے زیادہ( 28فی صد) ٹکٹس نوجوانوں کو دیئے، جب کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے گیارہ، گیارہ فی صد امیدوار جواں عُمر تھے۔ عام انتخابات کے نتیجے میں19نئے جوان چہرے بھی قومی اسمبلی پہنچنے میں کام یاب ہوئے اور اس ضمن میں سب سے زیادہ نئے چہرے خیبر پختون خوا سے سامنے آئے، جنہیں تحریکِ انصاف کی حمایت حاصل تھی۔

پنجاب اور بلوچستان سے بھی کچھ نوجوان اُمیدوار پہلی بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے میں کام یاب ہوئے، جیسا کہ بلوچستان کے نواب زادہ میر جمال خان رئیسانی 25برس کی عُمر میں قومی اسمبلی کے کم عُمر ترین رُکن بنے۔ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں حکومت سازی مکمل ہونے کے بعد ایک مُلک گیر سروے کیا گیا، جس میں زیادہ تر نوجوانوں نے نئی حکومت سے توقّعات وابستہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ غربت کا خاتمہ حُکم رانوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔‘‘

سروے میں 18سے 34برس کے نوجوانوں سے سوال کیا گیا تھا کہ’’ اُن کے خیال میں نئی حکومت کی پہلی قومی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟‘‘ ہر پانچ میں سے تین نوجوانوں کی رائے تھی کہ غربت کا خاتمہ پہلی ترجیح ہونی چاہیے، جب کہ58فی صد نے بے روزگاری میں کمی کو اولین ترجیح قرار دیا۔ لگ بھگ28 فی صد نے تعلیمی سہولتوں میں اضافے، جب کہ23 فی صد نے صحت کی سہولتیں بہتر بنانے کے حق میں رائے دی۔

نونہالانِ وطن کی بات کی جائے، تو وطنِ عزیز میں سالِ رفتہ بھی بچّوں کے لیے ڈرائونا خواب ہی ثابت ہوا۔ خصوصاً بچّوں کے ساتھ زیادتی کے لرزا دینے والے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔2024ء کے ابتدائی چھے ماہ میں مُلک کے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر بچّوں پر تشدّد کے 1630واقعات رپورٹ ہوئے۔(یہ اعداد وشمار81 مختلف قومی اور علاقائی اخبارات کی جانچ پڑتال کے مرتّب ہوئے)۔اِن میں862 جنسی تشدّد،668 اغواء، 82 بچّوں کی گم شدگی کے اور 18کم عُمری کی شادی کے واقعات شامل ہیں۔

48واقعات میں بچّوں سے جنسی زیادتی کے ساتھ، اُن کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بنائی گئیں۔واضح رہے، ان میں سے78 فی صد پنجاب،11 فی صد سندھ،6 فی صد اسلام آباد،3 فی صد خیبر پختون خوا اور2 فی صد واقعات بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے سامنے آئے۔

2024 ء کی پہلی ششماہی میں جنسی تشدّد کے واقعات میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی شرح زیادہ رہی۔اعداد و شمار کے مطابق 59فی صد لڑکیوں اور41 فی صد لڑکوں کو جنسی تشدّد کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ6 سے15 سال کی عُمر کے بچّوں کو سب سے زیادہ جنسی تشدّد کا نشانہ بنایا گیا، جن کی تعداد693 تھی۔نیز،5 سال سے کم عُمر94 بچّے اور 16سے 18 سال کے 231بچّے بھی جنسی تشدّد کا شکار ہوئے، جب کہ روپرٹ ہونے والے612 واقعات میں بچّوں کی عُمر کا اندارج ہی نہیں کیا گیا۔

کئی قابل نوجوان ہاتھوں میں اسناد تھامے ملازمتوں کی تلاش میں مارے مارے پِھرتے رہے

گزشتہ برس پاکستان میں ڈھائی لاکھ سے زائد بچّوں کو اسکولز میں لانے کے لیے تعلیمی ایمرجینسی نافذ کی گئی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان میں 2 کروڑ62 لاکھ کے قریب بچّے اسکولز سے باہر ہیں۔ صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ11 لاکھ سے زائد بچّے تعلیم سے محروم ہیں، جب کہ سندھ میں70 لاکھ، خیبرپختون خوا میں36 لاکھ، بلوچستان میں31 لاکھ اور اسلام آباد میں تقریباً80 ہزار بچّے تعلیم سے محروم ہیں۔ 

وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے مُلک بَھر میں تعلیمی ایمرجینسی نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقّی نہیں کرسکتی، ہم 2 کروڑ60 لاکھ بچّوں کو ہر صُورت اسکولز میں داخل کروائیں گے۔ اُنھوں نے اعتراف کیا کہ مُلک میں اِتنی بڑی تعداد میں بچّوں کا اسکول نہ جانا لمحۂ فکریہ اور اربابِ اختیار کے لیے ایک چیلنج ہے۔

بچّوں کی صحت کی بات کی جائے، تو اِس حوالے سے بھی 2024ء کچھ زیادہ اچھا ثابت نہ ہوسکا۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ اور مسلسل کوششوں کے باوجود مُلک سے پولیو کا خاتمہ نہ ہو سکا۔متعدّد انسدادِ پولیو مہمّات کے باوجود مُلک کے مختلف حصّوں سے نئے کیسز سامنے آتے رہے۔نیشنل ای او سی کے مطابق، 2024ء میں مُلک میں پولیو کیسز کی تعداد59رہی، جن میں سے بلوچستان سے26 ، خیبر پختون خوا سے16 ، سندھ سے 15 اور پنجاب اور اسلام آباد سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا۔

گزشتہ برسوں کی طرح 2024ء میں بھی مُلک سے’’برین ڈرین‘‘ کا سلسلہ نہ رُک سکا اور اب تو بعض تجزیہ نگار اسے’’بھوک ڈرین‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔بیورو آف امیگریشن کے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ سال بہتر مستقبل کے لیے مُلک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد 7لاکھ سے زائد تھی اور تارکِ وطن ہونے والوں میں ڈاکٹرز، انجینئرز، فارماسسٹس، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایکسپرٹس، اکاؤنٹنٹس اور قانون دانوں کی تعداد زیادہ ہے۔

یاد رہے،2021 ء میں تقریباً2لاکھ 25ہزار پاکستانیوں نے مُلک چھوڑا تھا، اگلے سال یہ تعداد تقریباً تین گُنا بڑھ کر7لاکھ 65ہزار ہو گئی، جب کہ2023 ء میں8لاکھ60ہزار سے زائد پاکستانی تعلیم اور ملازمتوں کی تلاش میں بیرونِ ممالک گئے۔ دراصل مُلک کے نامساعد معاشی حالات اور بے یقینی کی صورتِ حال کے سبب بیش تر نوجوانوں کا خٰال ہے کہ وہ یہاں اپنی مہارت و صلاحیت ضایع کر رہے ہیں۔ 

اُنھیں، اُن کے اسکلز کے مطابق روزگار اور سہولتیں میسّر نہیں اور کسی حد تک یہ درست بھی ہے کہ سالِ رفتہ بھی روزگار کی تلاش میں ہاتھ میں ڈگریاں لیے پِھرنے والے نوجوانوں کا گراف بہت زیادہ رہا اور ان میں سے اکثر ملازمتوں سے محروم ہی رہے۔موجودہ حکومت نے’’رائٹ سائزنگ‘‘ کے نام پر بڑے پیمانے پر کئی محکمے ختم یا ضم کر کے نہ صرف لاکھوں ملازمین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا بلکہ کئی تعلیم یافتہ نوجوان تو سرکاری سیکٹر سے یک سر مایوس ہی ہو گئے۔

نیز، سرکاری ملازمت کے لیے پینشن کا نیا نظام متعارف کروانے کے بعد ملازمین کے لیے فیملی پینشن کی صُورت موجود تحفّظ کا احساس بھی ختم ردیا گیا ہے۔مُلک میں نوجوانوں کی اکثریت کس طرح بے روزگاری سے نبردآزما ہے، اس کا مظاہرہ وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں تب دیکھنے میں آیا، جب محکمۂ پولیس کی1667 اسامیوں کے لیے30 ہزار سے زائد نوجوانوں نے ٹیسٹ دیا، جب کہ ان ساڑھے سولہ سو سے زائد اسامیوں کے لیے آنے والی درخواستوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ 

مُلک میں معاش کا مسئلہ اِس قدر سنگین ہو چُکا ہے کہ نوجوان ’’ڈنکی‘‘ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِس سستے، شارٹ کٹ راستے کی90 تا 95فی صد منزل’’موت‘‘ ہی ہے۔ کیوں کہ اکثر بے رحم انسانی اسمگلرز، ایجینٹس ان نوجوانوں کو کنٹینرز میں بَھر کر غیر قانونی راستوں سے لے جانے کی کوشش میں حالات ہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ سو، متعدّد تو راہ ہی میں جہانِ فانی سے کُوچ کر جاتے ہیں۔

نوجوانوں نے عام انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا 

بقیہ یا تو جیلوں میں سزائیں کاٹتے ہیں یا جو بچ بچا کر یورپ پہنچ بھی جاتے ہیں،وہ ویزے، جیل، زبان، اسائلم اور مناسب روزگار جیسے مسائل ہی میں گھیرے رہتے ہیں۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں نوجوانوں کے روزگار کے مسائل پر روشنی ڈالی جائے، تو سندھ کے اکثر نوجوان جب پڑھ لکھ جاتے ہیں، تو خود کو وڈیروں سے غیر محفوظ گردانتے ہوئے بیرونِ مُلک کوچ ہی کو غنیمت سمجھتے ہیں۔خیبر پختون خوا میں زیادہ تر خواتین صنفی بنیادوں پر تفریق کے سبب باہر جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ 

پنجاب کے معاشی حالات بھی نوجوانوں کو دل برداشتہ کر رہے ہیں۔اعلیٰ ڈگریز کے ہوتے ہوئے کم اجرت پر نوکریوں نے نوجوانوں کو فکروں اور مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیاہے اور یہی مایوسی اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافے کا سبب بن گئی ہے۔ خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر گریجویٹ لڑکے چوری، ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوّث پائے جا رہے ہیں۔بلوچستان میں روزگار کے انتہائی محدود مواقع کے باعث نوجوانوں کی اکثریت کا انحصار سرکاری ملازمتوں پر ہے، لیکن اب ملازمتیں حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کہ چپڑاسی کی نوکری کے لیے بھی لاکھوں روپے رشوت اور تگڑی سفارش درکار ہوتی ہے۔

وزیرِ اعظم، محمّد شہباز شریف نے نوجوانوں کے عالمی دن کے موقعے پر منعقد ہونے والی تقریب میں حکومتی یوتھ پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ’’نوجوان مستقبل کے معمار اور تبدیلی کا اصل محرّک ہیں۔ نوجوانوں کے عالمی دن کا تھیم’’ کلِکس سے ترقّی تک: یوتھ ڈیجیٹل پاتھ ویز فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ‘‘ واضح کرتا ہے کہ آج کے دَور میں جہاں ٹیکنالوجی اور مواقع کا سنگم ہو رہا ہے، وہیں نوجوانوں کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ ٹیکنالوجی اور مواقع کا یہ ملاپ نوجوانوں کو اپنی خواہشات کو ٹھوس نتائج میں بدلنے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔‘‘ 

اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’پاکستان ایک بڑی نوجوان آبادی کا حامل مُلک ہے، جو تیزی سے عالمی ڈیجیٹل منظرنامے سے جُڑ رہا ہے۔ تعلیم، کاروبار اور سماجی سرگرمیوں کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نوجوان اپنے اندر مثبت تبدیلی کے محرّک بن سکتے ہیں۔ ہم نے2013ء میں یوتھ لون اینڈ ایگری کلچرل اسکیم متعارف کروائی، جس کے اب خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔

اِس ضمن میں 2لاکھ 80ہزار سے زاید نوجوانوں میں کاروبار کے لیے تقریباً 186بلین روپے تقسیم کیے گئے، جس سے مُلک بَھر میں روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوئے۔ یوتھ بزنس لون اسکیم کو ہماری حکومت کے دَوران ری اسٹرکچر کیا گیا تھا اور ہم نے اس اسکیم میں مائکرو فنانس اداروں کو بھی بلاسود قرضے فراہم کرنے کے لیے شامل کیا تھا۔ہمارا یوتھ پروگرام ایک جامع نقطۂ نظر کا حامل منصوبہ ہے، جو نوجوانوں کو ہنر مندی کے فروغ کے پروگرام کے ذریعے ضروری مہارتوں سے آراستہ ہی نہیں، یوتھ لیپ ٹاپ اسکیم کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی اور یوتھ لون اسکیمز کے ذریعے مالی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔‘‘ 

وزیرِ اعظم کے خطاب کے تناظر میں معاشی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بہت تیزی سے اپنی شکل بدل رہے ہیں اور یہ تبدیلیاں ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر نہیں، روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہیں، نئی نئی اَپ ڈیٹس آرہی ہیں۔ آج سے دس سال بعد سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی ایک یک سر نئی شکل میں دنیا کے سامنے ہوگی، تو یہ نئی ٹیکنالوجی نوجوانوں کے لیے دنیا بھر میں اپنا کاروبار پھیلانے کا ایک سنہری موقع ہے۔

پاکستان میں بننے یا پیدا ہونے والی بہت سی اشیاء کی دنیا بَھر میں مانگ ہے۔وقت کے ساتھ صنعت وتجارت کی شکل بھی بدلتی جارہی ہے۔ آپ گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی آن لائن اسٹورسے خریداری اور اپنی بنائی مصنوعات فروخت کرسکتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کو اس تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اِن تبدیلیوں سے واقف بھی ہے۔آرٹیفیشل انٹیلی جینس مستقبل کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔ مائکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے بھی نوجوانوں کو لیکچر دیتے ہوئے اِس خطرے کی طرف اشارہ کیا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس مستقبل میں انسانوں پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس کے ذریعے ایک طرف اسپتالوں میں پیچیدہ آپریشن کیے جارہے ہیں، تو دوسری طرف یہ فوجی مقاصد کے لیے دوسرے ممالک کے خلاف بھی استعمال کی جا رہی ہے۔اگر مصنوعی ذہانت اچھے مقاصد کے لیے استعمال کی جائے، تو یہ تعلیم، صحتِ عامّہ، کاروبار اور طرزِ زندگی بہتر کرسکتی ہے اور ساتھ ہی عالمی عدم مساوات اور غربت میں کمی کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔

 ہر پانچ میں سے تین نوجوانوں کا غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کا مطالبہ

سالِ رفتہ نوجوانوں کے پسندیدہ ترین کھیل کرکٹ میں جہاں اتار چڑھاؤ آئے، وہیں کچھ دیگر کھیلوں میں پاکستانی نوجوانوں نے کام یابیوں کے جھنڈے بھی گاڑے۔ ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو میں نیا اولمپک ریکارڈ قائم کرتے ہوئے نہ صرف طلائی تمغہ حاصل کیا بلکہ پاکستانی قوم کا عالمی کھیلوں میں میڈل کے حصول کا4 دہائیوں سے جاری انتظار ختم کروایا۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے مکسڈ مارشل آرٹ فائٹر، شاہ زیب رند تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان کے پہلے کراٹے کومبیٹ ورلڈ چیمپئن بنے، جب کہ بلوچستان کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والے تن ساز، سیّد بلال احمد غرشین نے ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ، مین فزیک کیٹیگری میں گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ اُنہوں نے گزشتہ سال ساؤتھ ایشیا ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ میں بھی گولڈ میڈل جیتا تھا۔

بہرکیف، 2024ء کے اختتام اور نئے سال کی آمد پر، جو 20ویں صدی کی سلور جوبلی بھی ہے، یہی دُعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ کرے، نیا سال پاکستانی نوجوانوں کے لیے نت نئے مواقع اور کام یابیوں کی نوید لے کر آئے۔