• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2024 جاتے جاتے ایک اور سانحہ کی خبر دے گیا۔ گزشتہ دنوں یونان کے ساحلی مقام پر غیر قانونی تارکین وطن سے بھری کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں 5پاکستانیوں کی ہلاکت نے ہر پاکستانی کو دکھی اور صدمے سے دوچار کر دیا۔ 3کشتیوں میں سوار 76پاکستانی لیبیا کے علاقے تبروک سے یونان جارہے تھے لیکن مسافروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث کشتیاں حادثے کا شکار ہوگئیں۔ جاں بحق ہونے والے بدنصیب پاکستانیوں کا تعلق سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہائو الدین سے تھا۔ غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے تسلسل کے ساتھ ایسے افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جون 2023 ءمیں بھی یونان کے ساحلی مقام کے قریب غیر قانونی تارکین سے بھری کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں درجنوں پاکستانی اپنی جان گنوا بیٹھے تھے جبکہ اس سے قبل 2023ءکے اوائل میں ہی اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 100 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ حالیہ دنوں میں ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، غربت اور بیروز گاری کے باعث نوجوانوں کے بیرون ملک جانے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ نوجوان جو ملک کے معمار تصور کئے جاتے ہیں، بہتر مستقبل اور حصول روزگار کی غرض سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کیلئے اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائو الدین اور دیگر شہروں سے ہوتا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ محلے کے کسی خاندان کے افراد کے بیرون ملک جانے سے اُس

خاندان کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں تو وہ بھی لالچ میں اپنے نوجوان بیٹوں کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُنہیں بہتر مستقبل کا خواب دکھاکر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس گھنائونے دھندے سے ایک ہزار سے زائد کریمنل نیٹ ورک منسلک ہیں جن کا یہ غیر قانونی کاروبار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ جرائم پیشہ انسانی اسمگلرز سرِعام سادہ لوح اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے بھاری رقوم بٹو رہے ہیں۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خواہشمند نوجوانوں میں سے کچھ خوش نصیب نوجوان ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جبکہ بیشتر نوجوان سمندری لہروں کا شکار ہو جاتے ہیں یا انہیں گرفتار کر کے ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی اصل تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران 4لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے پاکستان ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔ انسانی اسمگلرز ایک ایسا ظالم مافیا ہے جو غریب عوام کو جھوٹے اور سنہری خواب دکھا کر ان سے پیسے بٹورتا ہے اور یہ افراد پیسے دے کر اپنی موت خریدتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب کر مرنے والے یا کنٹینرز میں دم گھنٹے سے ہلاک ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کی داستانیں اتنی المناک ہیں کہ انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDC نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں یہ معاشی بیماری وبا کی صورت اختیار کر جائے گا۔ انسانی اسمگلنگ سے متعلق بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ سے جہاں ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، وہاں دوسری طرف غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کی بڑی تعداد اپنی قیمتی جان گنوا رہی ہے جو یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث اسمگلرز اور ایجنٹوں کے نام ECL میں ڈالے گئے ہیں جبکہ اسمگلرز اور ایجنٹوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یونان میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعہ میں پاکستانیوں کی اموات کے بعد انسانی اسمگلرز کے ساتھ جرائم میں ملوث ایف آئی اے کے 35افسران اور اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے جو جرائم پیشہ افراد کیلئے ایک سخت پیغام ہے جس سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات بھی رونما نہیں ہوں گے۔ والدین کو بھی چاہئے کہ وہ ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنی نوجوان اولاد کے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ کل وہ اُن کی موت کا ذمہ دار خود کو نہ ٹھہرا سکیں۔

تازہ ترین